افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ برسر پیکار افغان سکیورٹی فورسز کے 2016ء کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران تقریباً 15 ہزار اہلکار ہلاک و زخمی ہوئے۔
امریکی حکومت کے افغانستان کی تعمیر نو سے متعلق ایک ادارے کی طرف سے جاری کی گئی رپورٹ میں کیا گیا ہے آٹھ ماہ میں افغان فورسز کی ہلاکتوں کی تعداد 5,523 تھی جب کہ لگ بھگ ساڑھے نو ہزار زخمی ہوئے۔
رپورٹ میں جنگ کے شکار ملک میں حاصل ہونے والی کامیابیوں کے متاثر ہونے کے بارے میں بھی متنبہ کیا گیا ہے۔
افغانستان کی تعمیر نو سے متعلق خصوصی انسپکٹر جنرل ’’ایس آئی جی اے آر‘‘ نے اتوار کو شائع ہونے والی اپنی سہ ماہی رپورٹ میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ حکومت نے رواں سال کی لڑائی میں 2.2 فیصد علاقے کا کنٹرول کھو دیا ہے۔
"افغانستان کے 407 اضلاع میں سے 258 اضلاع پر حکومت کا کنٹرول یا اثر و رسوخ ہے، 33 اضلاع باغیوں کے کنٹرول میں ہیں یا ان پر ان کا ا ثر و رسوخ ہے جبکہ 116 ضلعوں کے لیے " لڑائی" جاری ہے۔"
یکم جنوری 2015 سے لے کر اگست 2016 کے دوران 101 حملے "اندر کے" لوگوں نے کیے ہیں جن میں افغان نیشنل ڈیفنس اور سکیورٹی فورسز 'اے این ڈی ایس ایف' کے اہلکاروں نے اپنی ہی فورسز پر حملے کر کے 257 افراد کو ہلاک اور 125 کو زخمی کیا۔
"اے این ڈی ایس ایف کے پاس (سکیورٹی کے) خطرات سے نمٹنے کا نظام نہیں ہے اس لیے وہ اس طرح کی ںاکامیوں کو روکنے کے لیے امریکی فورسز پر انحصار کرتی ہیں۔"
طالبان کی طرف سے رواں سال اگست سے لڑائی میں شدت اور دیگر حملوں میں تیزی آئی ہے اور وہ رواں ماہ شمالی شہر قندوز اور جنوبی صوبے ہلمند کے دارالحکومت پر قبضہ کرنے کے قریب پہنچ گئے تھے۔
باغیوں کی طرف سے ان دو اہم شہروں کے علاوہ کئی دیگر صوبائی دارالحکومتوں پر حملے جاری ہیں جس کی وجہ سے افغان فورسز کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق افغانستان میں شورش کی وجہ سے ہونے والے واقعات میں آٹھ ہزار عام شہری ہلاک و زخمی ہو چکے ہیں اور ان میں 2016ء کے پہلے نو ماہ کے دوران دو ہزار پانچ سو افراد ہلاک ہوئے۔
’’ایس آئی جی اے آر‘‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکہ نے افغان خواتین کی بہبود کے منصوبوں کے لیے کم ازکم ایک ارب ڈالر مختص کیے ہیں تاہم خواتین کے لیے تعلیم اور سیاست میں مساوی نمائندگی کے مواقع میں 2006 کے بعد سے کمی واقع ہوئی ہے۔
"امریکہ کی طرف سے پندرہ سال قبل طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے افغانستان اب بھی دنیا میں خواتین کے لیے ایک خراب ترین جگہوں میں سے ایک ہے۔"
’’ایس آئی جی اے آر‘‘ کی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں غربت، بے روزگاری، روزگار کے کم مواقع، تشدد، ملک سے باہر اور ملک کے اندر نقل مکانی، تعلیم کے شعبوں میں صنفی فرق میں اضافہ ہو چکا ہے جبکہ (ملک میں) سہولیات کی فراہمی اور نجی سرمایہ کاری میں کمی واقع ہوئی ہے۔
رپورٹ کا کہنا ہے کہ 2016ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران 85 ہزار افغان شہریوں نے پہلی بار یورپی یونین میں پناہ حاصل کرنی چاہی۔ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ پناہ حاصل کرنے کے درخواستیں رواں سال اپریل سے جون کے دوران 2015ء کے اسی عرصے کے مقابلے میں 83 فیصد زیادہ تھیں۔