افغان شہریوں کی یورپ نقل مکانی

ہنگری سے آسٹریا سرحد پار کرنے کے بعد ایک افغان مہاجر لڑکا رسول نظری اپنے بھتیجے کے ساتھ۔ (فائل فوٹو)

افغانستان سے امریکہ اور نیٹو فورسز کے تیزی سے انخلا کے بعد بڑی تعداد میں افغان شہریوں نے ملک چھوڑنا شروع کیا ہے۔

افغانستان میں بگڑتی ہوئی سلامتی اور اقتصادی صورتحال کے باعث بڑی تعداد میں افغان شہری یورپ کا رخ کر رہے ہیں۔ طالبان دور کے بعد ایسا پہلی مرتبہ دیکھا گیا ہے۔

انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائگریشن کے مطابق جنوری سے دسمبر 2015 تک یورپی یونین کے 27 رکن ممالک میں دو لاکھ کے قریب افغان پناہ گزینوں کا اندراج کیا جا چکا ہے۔

افغانستان سے امریکہ اور نیٹو فورسز کے تیزی سے انخلا کے بعد بڑی تعداد میں افغان شہریوں نے ملک چھوڑنا شروع کیا ہے۔ بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد جنگ زدہ ملک کی تین کروڑ آبادی کو سلامتی اور اقتصادی چیلنجوں کا سامنا ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق طالبان اور داعش کے شدت پسندوں کے تشدد کے باعث 2001 کے بعد سے اب تک شہریوں کی اموات بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق افغانستان ایشیا میں سب سے کم ترقی یافتہ ملک ہے اور اس کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے۔

ملک سے شہریوں کے انخلا کے مالیاتی پہلو کی سرکاری نگرانی کا نظام موجود نہیں مگر اندازوں کے مطابق 2015 میں انسانی سمگلروں اور یورپ پہنچنے کے خواہشمند افغان شہریوں کے درمیان لگ بھگ ایک ارب ڈالر کا تبادلہ ہوا۔

خشکی سے گھرے افغانستان سے 4,000 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یونان جانے کے لیے لوگ انسانی سمگلروں کو اچھی خاصی رقم ادا کرتے ہیں۔

مہاجرین اور وطن واپسی کی وزارت کے ترجمان اسلام الدین جرات نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’ایک تارک وطن سمگلروں کو یورپ جانے کے لیے اوسطاً ساڑھے سات ہزار ڈالر ادا کرتا ہے۔‘‘

آباد کاری سے قبل اکثر مزید پیسے ادا کیے جاتے ہیں۔

ایک نوجوان افغان شہری دواجان ساحل نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’میں نے ہنگری جانے کے لیے ساڑھے چھ ہزار ڈالر ادا کیے مگر میری منزل بیلجیئم ہے۔ میں بیلجیئم جانے کے لیے مزید پیسے ادا کروں گا۔‘‘

ایک اور نوجوان بہرام غفوری نے کہا کہ اس نے جرمنی جانے کے لیے سمگلروں کو 10 ہزار ڈالر ادا کیے جہاں 2015 میں 80 ہزار سے زائد افغان شہریوں نے پناہ کی درخواست دی۔

شہریوں کی بے قاعدہ نقل مکانی کے اقتصادی مضمرات ابھی واضح نہیں۔ تاہم افغان شہریوں کے لیے یہ انخلا ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔

کابل میں افغان چیمبر آف کامرس سے وابستہ خان جان آلیکوزئی کا کہنا ہے کہ ’’ہم ان نوجوانوں کو کھو رہے ہیں جو ملک کی ترقی میں بہت مددگار ثابت ہو سکتے ہیں اور وہ لاکھوں ڈالر ضائع کرتے ہیں جنہیں معیشت کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‘‘

کابل میں قائم تحقیقی ادارے افغانستان انیلسز نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے سینیئر تحقیق کار ٹامس رٹلیگ کے مطابق بہت سے تارکین وطن سمگلروں کو پیسے ادا کرنے کے لیے اپنی محنت سے کمائی ہوئی بچت کو داؤ پر لگاتے ہیں، جائیداد فروخت کرتے ہیں یا قرض لیتے ہیں۔

بہت سے تارکین وطن اپنی منرل تک پہنچنے تک سمگلروں کو نقد یا اقساط میں پیسے ادا کرتے ہیں جبکہ دیگر افراد یہ پیسے وہاں پہنچنے پر کما کر ادا کرتے ہیں جس کے باعث غلامی کی جدید قسموں نے جنم لیا ہے۔

امریکہ کے محکمہ خارجہ کی انسانی سمگلنگ سے متعلق رپورٹس کے مطابق ایسے افراد قرض کی غلامی اور جنسی غلامی میں پھنس جاتے ہیں۔