پیر کو افغانستان میں امریکی فورسز کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ان قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ قانون کی عملی داری سے متعلق پیش رفت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔
افغانستان میں امریکی فوج کے ہیڈ کوارٹر نے افغان حکومت کی جانب سے 37 قیدیوں کی رہائی کے فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ افراد ’سلامتی کے لیے حقیقی‘ خطرہ ہیں۔
پیر کو افغانستان میں امریکی فورسز کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ان قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ قانون کی عملی داری سے متعلق پیش رفت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔
جن قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے وہ اُن 88 افراد کی فہرست میں شامل تھے جو کہ امریکی نگرانی میں جلنے والے ’بگرام جیل‘ میں قید رہ چکے ہیں۔
امریکہ نے بگرام جیل کا انتظام افغان حکومت کو سونپ دیا تھا۔
صدر حامد کرزئی نے ان تمام قیدیوں کے مقدمات کا از سر نو جائزہ لینے کا حکم دیتے ہوئے رواں ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ ان میں سے 16 کو رہا کیا جائے گا کیوں کہ حکام کے پاس ان افراد کے خلاف مقدمات چلانے کے لیے کافی شواہد نہیں ہیں۔
امریکی فوجی بیان میں کہا گیا کہ جن 37 قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ کیا گیا ہے اُنھیں سزا دینے یا اُن کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ ان میں سے 17 قیدی دیسی ساخت کے بم دھماکوں میں جب کہ تین فائرنگ کر کے افغان فوجیوں کو ہلاک یا زخمی کرنے میں ملوث ہیں اور چار بین الاقوامی اتحادی افواج کے اہلکاروں پر حملے کر چکے ہیں۔
افغانستان میں بین الاقوامی اتحادی افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جوزف ڈیفورڑ نے رواں ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ ان قیدیوں کی رہائی سے غیر ملکی فوجیوں اور افغان عوام کی سلامتی کو درپیش خطرات میں اضافہ ہو گا۔
امریکی سینیٹروں کے ایک وفد نے بھی رواں ماہ اپنے دورہ افغانستان کے موقع پر کہا تھا کہ بغیر مقدمہ چلائے ان قیدیوں کی رہائی کے دوطرفہ تعلقات پر انتہائی تباہ کن نتائج ہوں گے۔
افغانستان اور امریکہ کے درمیان سکیورٹی معاہدے پر صدر کرزئی کی جانب سے دستخط نا کرنے پر پہلے ہی دوطرفہ تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔
سکیورٹی معاہدے کے تحت افغانستان سے 2014ء کے اواخر تک غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد بھی امریکی فوجی افغانستان میں رہ سکیں گے۔
قبائلی عمائدین کا ’لویا جرگہ‘ امریکہ اور افغانستان کے درمیان سکیورٹی معاہدے کی منظوری دے چکا ہے لیکن اس کے باوجود صدر کرزئی نے اس پر دستخط سے انکار کر دیا۔
صدر کرزئی کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ افغان شہریوں کے گھروں پر ’ریڈز‘ بند کرے اور افغان طالبان سے مذاکرات کا آغاز کرے۔
پیر کو افغانستان میں امریکی فورسز کے ایک بیان میں کہا گیا کہ ان قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ قانون کی عملی داری سے متعلق پیش رفت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔
جن قیدیوں کو رہا کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے وہ اُن 88 افراد کی فہرست میں شامل تھے جو کہ امریکی نگرانی میں جلنے والے ’بگرام جیل‘ میں قید رہ چکے ہیں۔
امریکہ نے بگرام جیل کا انتظام افغان حکومت کو سونپ دیا تھا۔
صدر حامد کرزئی نے ان تمام قیدیوں کے مقدمات کا از سر نو جائزہ لینے کا حکم دیتے ہوئے رواں ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ ان میں سے 16 کو رہا کیا جائے گا کیوں کہ حکام کے پاس ان افراد کے خلاف مقدمات چلانے کے لیے کافی شواہد نہیں ہیں۔
امریکی فوجی بیان میں کہا گیا کہ جن 37 قیدیوں کی رہائی کا فیصلہ کیا گیا ہے اُنھیں سزا دینے یا اُن کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
بیان میں کہا گیا کہ ان میں سے 17 قیدی دیسی ساخت کے بم دھماکوں میں جب کہ تین فائرنگ کر کے افغان فوجیوں کو ہلاک یا زخمی کرنے میں ملوث ہیں اور چار بین الاقوامی اتحادی افواج کے اہلکاروں پر حملے کر چکے ہیں۔
افغانستان میں بین الاقوامی اتحادی افواج کے امریکی کمانڈر جنرل جوزف ڈیفورڑ نے رواں ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ ان قیدیوں کی رہائی سے غیر ملکی فوجیوں اور افغان عوام کی سلامتی کو درپیش خطرات میں اضافہ ہو گا۔
امریکی سینیٹروں کے ایک وفد نے بھی رواں ماہ اپنے دورہ افغانستان کے موقع پر کہا تھا کہ بغیر مقدمہ چلائے ان قیدیوں کی رہائی کے دوطرفہ تعلقات پر انتہائی تباہ کن نتائج ہوں گے۔
افغانستان اور امریکہ کے درمیان سکیورٹی معاہدے پر صدر کرزئی کی جانب سے دستخط نا کرنے پر پہلے ہی دوطرفہ تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔
سکیورٹی معاہدے کے تحت افغانستان سے 2014ء کے اواخر تک غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد بھی امریکی فوجی افغانستان میں رہ سکیں گے۔
قبائلی عمائدین کا ’لویا جرگہ‘ امریکہ اور افغانستان کے درمیان سکیورٹی معاہدے کی منظوری دے چکا ہے لیکن اس کے باوجود صدر کرزئی نے اس پر دستخط سے انکار کر دیا۔
صدر کرزئی کا کہنا ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ افغان شہریوں کے گھروں پر ’ریڈز‘ بند کرے اور افغان طالبان سے مذاکرات کا آغاز کرے۔