پاکستان میں تعینات افغان سفیر ڈاکٹر عمر زخیلوال نے اسلام آباد کے اس بیان پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان نے گزشتہ نومبر میں افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے 27 مشتبہ افراد کو افغانستان کے حوالے کیا تھا۔
پاکستانی دفترِ خارجہ کے ترجمان محمد فیصل نے منگل کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کا ملک اپنی سرزمین افغانستان میں دہشت گردی کی کسی بھی کارروائی میں استعمال ہونے سے روکنے کے لیے افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے مشتبہ لوگوں کے خلاف اقدام کرتا رہے گا۔
ان کے بقول اس ضمن میں پاکستان نے گزشتہ نومبر میں تحریکِ طالبان افغانستان اور حقانی نیٹ ورک کے 27 مشتبہ افراد کو افغانستان کے حوالے کیا تھا۔
بدھ کو اس بیان پر اپنے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے افغان سفیر عمر زخیلوال نے ٹوئٹر پر کہا کہ "یہ یقیناً میرے لیے ایک خبر ہے! اور اگر ایسا ہوا ہے تو یہ ہمارے اہم دوطرفہ تعلقات میں ایک انتہائی بڑی پیش رفت ہے۔"
امریکہ کے علاوہ افغانستان بھی یہ دعویٰ کرتا آیا ہے کہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے کئی رہنما پاکستان میں مقیم ہیں جب کہ ان عسکریت پسند گروپوں کے لوگوں نے پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں اور پاکستان ان کے خلاف سنجیدہ کارروائی نہیں کرتا۔
لیکن اسلام آباد کا اصرار رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کرتے ہوئے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو ختم کر چکا ہے۔
افغان سفیر نے ذرائع ابلاغ میں آنے والی ان خبروں کی بھی تردید کی ہے کہ افغان صدر نے کابل میں ہونے والے دہشت گرد حملوں پر اظہارِ تعزیت کے لیے کی گئی پاکستانی وزیرِ اعظم کی ٹیلی فون کال وصول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
افغانستان کے 'طلوع نیوز' نے ذرائع کے حوالے سے یہ خبر دی تھی کہ منگل کو صدر غنی نے پاکستانی وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کی طرف سے کی جانے والی کال نہیں سنی تھی۔
بدھ کو عمر زخیلوال نے ٹوئٹر پر اس دعوے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی ٹیلی فون کال نہیں ہوئی۔
ان کے بقول کابل میں ہونے والے حالیہ وحشیانہ دہشت گرد حملوں کے بعد وزیرِ اعظم پاکستان نے صدر غنی کے لیے اپنا پیغام پہنچایا تھا جس کے جواب میں صدر کی طرف سے ایک اعلیٰ سطحی وفد بھیجا گیا جو بدھ کو پاکستانی وزیرِ اعظم سے ملاقات کر رہا ہے۔
افغانستان کے وزیرِ داخلہ اور مرکزی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ بدھ کو اسلام آباد پہنچے ہیں۔
ان کے اس دورے کے بارے میں 'طلوع نیوز' نے دعویٰ کیا تھا کہ "یہ عہدیدار کابل میں ہونے والے حالیہ حملوں کے شواہد پاکستانی حکام کو فراہم کریں گے۔"