جج کے گھر پر کام کرنے والی نو عمر ملازمہ پر تشدد

فائل فوٹو

اس واقعہ کا ذکر سماجی میڈیا پر آنے کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے لڑکی کو جج کے گھر سے برآمد کر کے اسے ایک مقامی میجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا۔

پاکستان میں خواتین، بچوں اور خاص طور پر معاشرے کے کمزور طبقات کے خلاف تشدد کے واقعات آئے روز رونما ہوتے رہتے ہیں جن کے خلاف نا صرف انسانی حقوق کے سرگرم کارکن آواز بلند کرتے ہیں بلکہ مقامی ذرائع ابلاغ میں بھی ان معاملات کو اٹھایا جاتا ہے۔

ایسا ہی ایک واقعہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پیش آیا جہاں ایک ضلعی جج کے گھر پر کام کرنے والی ایک کم عمر لڑکی کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعہ کا ذکر سماجی میڈیا پر آنے کے بعد پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے لڑکی کو جج کے گھر سے برآمد کر کے اسے ایک مقامی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا جہاں اس نے اپنے خلاف ہونے والے تشدد کی تفصیل بتائی۔

اسلام آباد پولیس کے ایک انسپکٹر خالد اعوان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ لڑکی کے بیان کے بعد اس واقعہ کا مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔

خالد اعوان نے کہا کہ پولیس کی ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی کہ لڑکی ایک مقامی جج کے گھر پر بطور گھریلو ملازمہ کام کرتی تھی جہاں اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ سے اس کی ایک آنکھ، چہرے اور ہاتھ پر شدید زخم آئے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکی کے طبی معائنے میں بھی اس بات کی تصدیق کی گئی ہے۔

انسپکڑ خالد نے کہا کہ لڑکی کے بیان کے مطابق جج کی اہلیہ اس واقعہ میں مبینہ طور پر ملوث ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس اس معاملے کی تمام پہلوؤں سے تفتیش کر رہی ہے۔

بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم سوسائٹی فار پروٹیکشن آف رائیٹس آف چائلڈ کی ایک عہدیدار قدسیہ محمود نے اس واقعہ پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے اس ایک گھناؤنا فعل قرار دیا۔

"اگر ہم بطور شہری دیکھیں تو ہر جگہ ہمیں بچے کام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں، مثال کے طور پر ورکشاپ میں جائیں تو اکثر چھوٹے بچوں کو کام کرتے ہوئے دیکھیں گے۔ اس طرح آپ گھروں میں اکثر بچے (گھریلو ملازم کے طور پر) کام کرتے نظر آئیں گے لیکن ان بچوں کے حقوق کے لیے بہت کم آواز اٹھائی جاتی ہے۔۔"

قدسیہ محمود نے کہا کہ بچے اپنا تحفظ کرنے کے قابل نہیں ہوتے اس لیے ان کے خلاف تشدد کے واقعات اکثر پیش آتے رہتے ہیں۔

"بچے جس بھی شعبے میں کام کریں تو انہیں تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ کمزور ہیں چاہے وہ گھروں میں بطور ملازم یا بطور چائلڈ لیبر کام کریں ۔۔۔وہ اپنے لیے آواز نہیں اٹھا سکتے ہیں انہیں جسمانی اور جنسی تشدد کے ساتھ ساتھ نفسیاتی دباؤ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ بچوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے جہاں موثر قانون سازی اور سخت سزائیں ضروری ہیں وہیں ان کے بقول یہ معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ ایسے واقعات کے خلاف آواز اٹھائے۔

ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ڈھائی کروڑ سے زائد بچے اسکول سے باہر ہیں اور ان کی ایک بڑی تعداد اپنے گھر والوں کی معاشی مدد کے لیے کام کرنے پر مجبور ہے۔