سابق صدر اب تک ایک دفعہ بھی اس خصوصی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے، جو ان پر تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین توڑنے کے الزام میں غدّاری کا مقدمہ چلانے کے لیے قائم کی گئی ہے
واشنگٹن —
سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف غدّاری کے مقدمے میں استغاثے کے وکیل، اکرم شیخ کا کہنا ہے کہ اگر جنرل مشرف 16 جنوری کو بھی عدالت میں پیش نہ ہوئے، اور عدالت نے ان کی حراست کے احکامات جاری کر دیے، تو وہ حکومت کو جنرل مشرف کو گھر میں نظر بند کرنے کی تجویز دیں گے۔
’وی او اے‘ کے ٹی وی شو ’ایکسس پوائنٹ‘ میں مسٹر شیخ کا کہنا تھا: ’استغاثہ کے سربراہ کے طور پر، میں حکومت کو مشورہ دوں گا کہ (جنرل مشرف) کا عالیشان بنگلہ ایک سب جیل قرار دے دیا جائے۔ اور انہیں اپنے عالیشان محل میں حراست میں رکھا جائے۔ محض ایک ٹوکن کے طور پر، تاکہ وہ عدالتی تحویل میں رہیں اور یہ مقدمہ آگے چل سکے۔‘
سابق صدر اب تک ایک دفعہ بھی اس خصوصی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے، جو ان پر تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین توڑنے کے الزام میں غدّاری کا مقدمہ چلانے کے لیے قائم کی گئی ہے۔ آخری دفعہ جب وہ عدالت کے راستے میں تھے تو ان کے سینے میں درد اٹھا اور انہیں راولپنڈی میں مسلح افواج کے عارضہٴ قلب کے ہسپتال میں سخت فوجی حفاظت میں داخل کرا دیا گیا۔
خصوصی عدالت نے ان کی طبّی رپورٹیں دیکھ کر انہیں اگلی پیشی پر حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ یہ مقدمہ فوجداری ضوابط کے تحت چلایا جائے گا، یعنی عدالت کو جنرل مشرف کی حراست کے احکامات جاری کرنے کا حق ہوگا۔
پرویز مشرف کے وکلاٴ نے اس خصوصی عدالت کی تشکیل، اس کے دائرہ اختیار، اس کے ججوں کی تقرری اور استغاثے کی تعیناتی کے خلاف درخواستیں جمع کروائی تھیں، اور یہ موقف بھی اختیار کیا تھا کہ، یہ عدالت سابق فوجی صدر کے خلاف مقدمہ سننے اور ان کی گرفتای کے احکامات دینے کی مجاز نہیں۔
تاہم، وکیل استغاثہ اکرم شیخ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ خصوصی عدالت کے قانون میں کوئی سقم نہیں اور اگر کہیں کوئی کمی ہے تو وہاں عمومی یا ریاستی قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔
انھوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت آرمی ایکٹ کے تحت جرائم کو ضابطہ فوجداری کے تابع قرار دے چکی ہے اور قانون میں ملزم کی گرفتاری اور اسے عدالت میں پیش کرنے سے متعلق طریقہٴکار موجود ہے۔
پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں کہا کہ انھوں نے عدالت سے یہ درخواست کر رکھی ہے کہ جب تک خصوصی عدالت کی تشکیل اور دیگر اعتراضات پر فیصلہ نہیں ہوجاتا، ان کے موکل کو عدالت میں طلب نہ کیا جائے۔
16 جنوری کو عدالت حکم پر پرویز مشرف کے پیش ہونے کے بارے میں، احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ ’یہ ڈاکٹرز کی رائے پر منحصر ہے۔ اگر ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ وہ (پرویز مشرف) عدالت میں پیش نہیں ہوسکیں گے۔ تو، ڈاکٹرز کی رائے حتمی رائے ہوتی ہے۔‘
’وی او اے‘ کے ٹی وی شو ’ایکسس پوائنٹ‘ میں مسٹر شیخ کا کہنا تھا: ’استغاثہ کے سربراہ کے طور پر، میں حکومت کو مشورہ دوں گا کہ (جنرل مشرف) کا عالیشان بنگلہ ایک سب جیل قرار دے دیا جائے۔ اور انہیں اپنے عالیشان محل میں حراست میں رکھا جائے۔ محض ایک ٹوکن کے طور پر، تاکہ وہ عدالتی تحویل میں رہیں اور یہ مقدمہ آگے چل سکے۔‘
سابق صدر اب تک ایک دفعہ بھی اس خصوصی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہوئے، جو ان پر تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین توڑنے کے الزام میں غدّاری کا مقدمہ چلانے کے لیے قائم کی گئی ہے۔ آخری دفعہ جب وہ عدالت کے راستے میں تھے تو ان کے سینے میں درد اٹھا اور انہیں راولپنڈی میں مسلح افواج کے عارضہٴ قلب کے ہسپتال میں سخت فوجی حفاظت میں داخل کرا دیا گیا۔
خصوصی عدالت نے ان کی طبّی رپورٹیں دیکھ کر انہیں اگلی پیشی پر حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ یہ مقدمہ فوجداری ضوابط کے تحت چلایا جائے گا، یعنی عدالت کو جنرل مشرف کی حراست کے احکامات جاری کرنے کا حق ہوگا۔
پرویز مشرف کے وکلاٴ نے اس خصوصی عدالت کی تشکیل، اس کے دائرہ اختیار، اس کے ججوں کی تقرری اور استغاثے کی تعیناتی کے خلاف درخواستیں جمع کروائی تھیں، اور یہ موقف بھی اختیار کیا تھا کہ، یہ عدالت سابق فوجی صدر کے خلاف مقدمہ سننے اور ان کی گرفتای کے احکامات دینے کی مجاز نہیں۔
تاہم، وکیل استغاثہ اکرم شیخ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ خصوصی عدالت کے قانون میں کوئی سقم نہیں اور اگر کہیں کوئی کمی ہے تو وہاں عمومی یا ریاستی قوانین کا اطلاق ہوتا ہے۔
انھوں نے عدالت کو بتایا تھا کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت آرمی ایکٹ کے تحت جرائم کو ضابطہ فوجداری کے تابع قرار دے چکی ہے اور قانون میں ملزم کی گرفتاری اور اسے عدالت میں پیش کرنے سے متعلق طریقہٴکار موجود ہے۔
پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں کہا کہ انھوں نے عدالت سے یہ درخواست کر رکھی ہے کہ جب تک خصوصی عدالت کی تشکیل اور دیگر اعتراضات پر فیصلہ نہیں ہوجاتا، ان کے موکل کو عدالت میں طلب نہ کیا جائے۔
16 جنوری کو عدالت حکم پر پرویز مشرف کے پیش ہونے کے بارے میں، احمد رضا قصوری کا کہنا تھا کہ ’یہ ڈاکٹرز کی رائے پر منحصر ہے۔ اگر ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ وہ (پرویز مشرف) عدالت میں پیش نہیں ہوسکیں گے۔ تو، ڈاکٹرز کی رائے حتمی رائے ہوتی ہے۔‘