سندھ: پونے دو لاکھ خواتین اسقاط حمل کی پیچیدگیوں کا شکار

فائل فوٹو

رواں سال اسقاط حمل کے بعد پیچیدگیوں کے باعث 15 فیصد خواتین موت کے منہ میں جاچکی ہیں
سندھ میں گزشتہ برسوں کی نسبت اس سال اسقاط حمل کے کیسز کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔

'پاپولیشن کونسل' کی ایک سروے رپورٹ کے مطابق رواں سال جو خواتین اسقاط حمل کی پیچیدگیوں کا شکار ہوئیں ان کی تعداد ایک لاکھ 74 ہزار 908 ہے۔


اس بات کا انکشاف کراچی میں 'پاپولیشن کونسل' کے زیرِاہتمام ایک سیمینار میں کیا گیا۔

سیمینار سے خطاب کے دوران
ڈاکٹر وزیر علی کا کہنا تھا کہ اسقاطِ حمل کے بعد پیچیدگیوں کے اتنے زیادہ کیسز سامنے آنا تشویش ناک ہے۔ ان کے بقول رواں سال اب تک اسقاطِ حمل کے بعد پیچیدگیوں کے باعث 15 فی صد خواتین موت کے منہ میں جاچکی ہیں جس کی بڑی وجہ صحت کی مناسب سہولتوں کا فقدان ہے۔

ڈاکٹر وزیر علی نے مزید کہا کہ گزشتہ برسوں کی نسبت اس سال اسقاطِ حمل سے متعلق طبی پیچیدگیوں کے اتنے زیادہ کیسز سامنے آنے کی ایک اہم وجہ غیر ارادی حمل اور فیملی پلاننگ کے مناسب اصولوں کو نہ اپنانا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر سال 10 لاکھ میں سے 390 خواتین دورانِ زچگی پیچیدگیوں کے باعث ہلاک ہوجاتی ہیں۔ سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں رجسٹرڈ اسقاط حمل کے بعد پیچیدگیوں کے کیسز کی تعداد 73 ہزار 512، جب کہ نجی اسپتالوں میں یہ تعداد ایک لاکھ 13 ہزار سے زائد بتائی گئی ہے۔

'پاکستان پاپولیشن کونسل' کے مطابق بچوں کی پیدائش کے دوران ہر سال 14 ہزار اور روزانہ کی بنیاد پر 35 خواتین جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔

کونسل کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں 80 لاکھ خواتین فیملی پلاننگ کے طریقوں پر عمل کرنا چاہتی ہیں جن پر عمل درآمد سے اسقاط حمل اور اس سے پیش آنے والی پیچیدگیوں سے بڑی حد تک بچا جاسکتا ہے۔


ایک ملک گیر سروے کے مطابق پاکستان میں 15 سے 49 سال کی عمر کی شادی شدہ خواتین میں مانع حمل طریقوں کا استعمال صرف 30 فیصد ہے جو بین الاقوامی شرح کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔

مانعِ حمل طریقوں پر عمل نہ کرنے والی بعض خواتین اسقاط حمل جیسے پیچیدہ عمل کی جانب راغب ہوتی ہیں جس کے بعد انھیں کئی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔


'پاپولیشن کونسل سروے' کی رپورٹ بتاتی ہے کہ ہر ایک ہزار میں سے 29 خواتین اسقاط حمل کا شکار ہوتی ہیں جبکہ پاکستان میں موجودہ قانون کی رو سے صرف عورت کی جان بچانے کے لیے اسقاط حمل کی اجازت ہے۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ بچے کی جنس کے تعین کے بعد بھی اسقاط حمل کے کیسز کی بڑی تعداد سامنے آرہی ہے۔