کابل میں امریکہ کے سفارت خانے نے امریکی محکمۂ دفاع کے ترجمان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں دھونس اور طاقت کے بل بوتے پر قائم ہونے والی حکومت کو دنیا تسلیم نہیں کرے گی۔
افغانستان میں کسی بھی حکومت کو جائز ماننے، اور اس کے لیے امداد صرف اسی صورت ممکن ہو گی اگر وہ انسانی حقوق کا احترام کرے، اس حکومت کی ساکھ ہو اور اس کے اپنے لوگوں کی نظروں میں اس کی ایک قانونی حیثیت ہو۔
یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب افغانستان کے اندر طالبان جنگجوؤں کی پیش قدمی اور عام شہریوں اور انفراسٹرکچر پر ان کے حملوں میں تیزی آ رہی ہے۔
دوسری جانب افغانستان کی اعلیٰ مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ کئی صوبوں میں لڑائی میں شدت آنے کے بعد یہ لڑائی ان کے الفاظ میں، کابل شہر کے دروازوں تک پہنچ گئی ہے۔ تاہم انہوں نے بتایا ہے کہ اب بھی کابل حکومت اور دوحہ میں موجود طالبان کے درمیان رابطے برقرار ہیں۔
افغانستان میں گزشتہ 12 برسوں میں 38 ہزار عام شہری مارے گئے ہیں جب کہ 70 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔
کابل میں امریکی سفارت خانے میں چارچ ڈی افئرز راس ولسن نے طالبان کی حالیہ فتوحات کے پس منظر میں کہا ہے کہ دنیا تسلط کو قبول نہیں کرے گی۔ انہوں نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ جاری تشدد ختم کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر آئیں۔
اپنے ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا:
’’ جیسا کہ محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے 22 جون کو کہا تھا، دنیا افغانستان کے اندر کسی تسلط اور طاقت کے ذریعے قائم ہونے والی حکومت کو قبول نہیں کرے گی‘‘۔
راس ولسن نے مزید کہا کہ جیسا کہ ہمیں ذرائع ابلاغ اور شاہدین سے طالبان کے عام شہریوں اور انفراسٹرکچر پر حملوں کی خبریں مل رہی ہیں، ہم طالبان سے کہیں گے کہ وہ مذاکرات کی طرف واپس آئیں اور تشدد ترک کر دیں۔
امریکہ کے محکمہ دفاع کے ترجمان جان کربی نے بھی گزشتہ روز طالبان کو یاد دلایا تھا کہ افغانستان کے اندر تشدد میں تیزی آ رہی ہے اور انہیں چاہیے کہ وہ قابل بھروسا انداز میں امن عمل کی جانب آئیں۔
سفارت خانے سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ افغانستان اور افغانستان کے عوام کی مدد کے لیے پر عزم ہے جیسا کہ صدر بائیڈن نے 26 جون کو کہا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان شراکت داری ختم نہیں ہو رہی ہے۔
ادھر افغانستان میں مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے، وائس آف امریکہ کی افغان سروس کے مطابق، قیادت کی سطح پر افغانستان کی صورت حال پر گفتگو میں کہا ہے کہ صوبوں میں لڑائی میں شدت آنے کے بعد یہ جنگ دارالحکومت کابل کے دروازوں تک پہنچ گئی ہے۔
تاہم انہوں نے بتایا کہ اس لڑائی کے باوجود اسلامی جمہوریہ افغانستان اور طالبان کے درمیان قطر کے شہر دوحہ میں رابطے موجود ہیں۔ لیکن ان کے بقول ان مذاکرات کے نتائج غیر واضح ہیں۔
صدر اشرف غنی کی نائب ترجمان فاطمہ مرسل نے بتایا ہے کہ صدر غنی ان حالات میں افغانستان کے تمام سیاست دانوں پر زور دے رہے ہیں کہ وہ ملک کے دفاع کے لیے متحد ہوں۔
اسی اثنا میں طالبان کے دوحہ میں ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم نے افغانستان کی حکومت کی مذاکراتی ٹیم پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ امن مذاکرات میں شامل نہیں ہو رہی ہے۔
میڈیا کو جاری اپنے ویڈیو پیغام میں طالبان کے ترجمان نے کہا ہے کہ کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے کابل مذاکراتی ٹیم کوامن بات چیت میں سنجیدگی سے شریک ہونا چاہیے۔