القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں موجودگی اور 2 مئی 2011 کو خفیہ امریکی آپریشن میں اس کی ہلاکت کے اسباب و واقعات کا جائزہ لینے کے لیے قائم کیے گئے کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے ایک تحقیقی رپورٹ تقریباً تین سال قبل اُس وقت کے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کو پیش کر دی تھی۔
جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال لاپتہ افراد سے متعلق معاملات کے بارے میں بریفنگ کے لیے پیر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے سامنے پیش ہوئے، جس کے بعد اُنھوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو منظر عام پر لانا چاہیئے۔
تاہم جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے اس بارے میں تفصیلات بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ اُنھوں نے حلف اٹھا رکھا ہے جس کے تحت وہ رپورٹ سے متعلق کچھ نہیں کہہ سکتے۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور داخلہ کے رکن جہانزیب جمال دینی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ حکومت کو چاہیئے کہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو جاری کر دے۔
’’بہتر یہ ہے کہ حکومت بجائے چیزوں کو چھپانے کے اُسے (رپورٹ کو) پیش کر دے، اُس میں جو کمزوریاں ہیں (جن کی نشاندہی کی گئی ہے) اُن کو دور کر دیں۔ تو ہماری استدعا یہ ہے کہ جب بھی کوئی کمیشن بنایا جائے اُس کی (رپورٹ) کو عوام الناس سے خفیہ نا رکھا جائے۔‘‘
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی قانون سازوں کی طرف سے حکومت سے یہ مطالبہ کیا جاتا رہا ہے کہ وہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ جاری کرتے ہوئے اس میں پیش گئی سفارشات پر ’’مکمل نفاذ‘‘ کو یقینی بنایا جائے۔
جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیشن نے رپورٹ کی تیاری میں 100 سے زائد افراد کے بیانات قلمبند کیے تھے جن میں فوج، فضائیہ، پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کے عہدیداروں کے علاوہ اسامہ بن لادن کے وہ اہل خانہ بھی شامل تھے جنہیں امریکی کمانڈو آپریشن کے بعد ایبٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ کی پناہ گاہ سے پاکستانی حکام نے اپنی تحویل میں لیا تھا۔
کمیشن کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ اپنی رپورٹ میں غفلت کے مرتکب ہونے والے اداروں اور عہدیداروں کی نشاندہی کرنے کے علاوہ اپنی سفارشات بھی حکومت کو پیش کرے گا تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات رونما نا ہو سکیں۔
جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال ملک میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بنائے گئے کمیشن کے بھی سربراہ ہیں، اُنھوں نے اس بارے میں بھی پیر کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اُمور داخلہ کو بریفنگ دی۔
بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو میں جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال نے کہا کہ اُنھیں لاپتہ افراد سے متعلق معلومات کے حصول کے لیے جس طرح کا تعاون درکار تھا وہ نہیں ملا۔
’’صوبوں کے بھی اپنے وعدے ہیں، اپنی مجبوریاں ہیں۔ جس حد تک ممکن ہے وہ تعاون کر رہے ہیں، ایسی بات نہیں کہ وہ بالکل تعاون نہیں کر رہے ہیں۔ لیکن میں جس تعاون کی توقع کر رہا ہوں وہ تعاون اتفاق سے ابھی تک مجھے نہیں ملا‘‘۔
جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ گزشتہ ماہ ملک کے مختلف حصوں سے 101 لاپتہ افراد بازیاب ہوئے، تاہم اُنھوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ ان افراد کو کہاں سے اور کیسے بازیاب کروایا گیا۔
پاکستان کے مختلف حصوں خاص طور پر بلو چستان سے لاپتا ہونے والے افراد کا معاملہ ملک میں کئی سالوں سے چلا آ رہا ہے اور صوبے کی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے تیار کی گئی فہرست میں دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے علاوہ انسانی حقوق کی غیر جانبدار تنظیمیں کہہ چکی ہیں کہ لاپتا افراد کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے۔
یہ معاملہ عدالت عظمیٰ میں بھی زیر غور رہا اور حکومت کی طرف سے یہ کہا جا رہا ہے کہ جبری گمشدگیوں کے معاملے کا حل اس کی ترجیحات میں شامل ہے اس لیے اس بارے میں ایک کمیشن بھی بنایا گیا ہے۔