پاکستان میں توہینِ مذہب کے مقدمے میں سزائے موت سنائے جانے کے بعد سپریم کورٹ سے بری ہونے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کینیڈا پہنچ گئی ہیں۔
پاکستانی حکام نے ان کی پاکستان سے روانگی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ آسیہ بی بی آزاد شہری ہیں اور وہ اپنی مرضی سے ملک چھوڑ گئی ہیں۔
آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک ایڈوکیٹ نے بھی ان کی پاکستان سے روانگی اور کینیڈا پہنچنے کی تصدیق کر دی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے سیف الملوک ایڈوکیٹ نے بتایا ہے کہ آسیہ بی بی کی بیٹیاں گزشتہ سال دسمبر میں ہی کینیڈا پہنچ گئی تھیں لیکن آسیہ بی بی بعض قانونی تقاضوں کی وجہ سے ملک میں ہی مقیم تھیں۔
لیکن ان کے بقول اب وہ مشکلات دور ہو گئی ہیں اور آسیہ بی بی اپنے شوہر کے ہمراہ کینیڈا پہنچ چکی ہیں۔
سفارتی ذرائع نے بھی آسیہ بی بی کی پاکستان سے روانگی کی تصدیق کی ہے۔ لیکن یہ پتا نہیں چل سکا کہ وہ کب، کس فلائٹ اور کس شہر سے بیرونِ ملک روانہ ہوئیں۔
آسیہ بی بی پر پنجاب کے ضلع شیخوپورہ میں جون 2009ء میں ان کے گاؤں کی بعض خواتین نے ایک جھگڑے کے دوران توہینِ مذہب پر مبنی کلمات ادا کرنے کا الزام لگایا تھا جس پر ان کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
بعد ازاں مقدمے کی سماعت کرنے والی ٹرائل کورٹ نے انہیں نومبر 2010ء میں توہینِ مذہب کا الزام ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی تھی۔
لیکن آسیہ کے اہلِ خانہ اور ان کے وکلا ان کی بے گناہی پر مصر تھے اور ان کا مؤقف تھا کہ آسیہ پر ذاتی چپلقش کی بنیاد پر توہینِ مذہب کا الزام لگایا گیا۔
بعد ازاں آسیہ بی بی نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا جس نے 2014ء میں ان کی سزائے موت کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔ لیکن گزشتہ سال سپریم کورٹ کے ایک تین رکنی بینچ نے آسیہ بی بی کی اپیل منظور کرتے ہوئے سزائے موت کا فیصلہ منسوخ کرتے ہوئے ان کی رہائی کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ سے رہائی کے حکم کے بعد پاکستان کے مختلف شہروں میں پرتشدد احتجاج بھی ہوا۔ جب کہ آسیہ بی بی اپنی رہائی کے بعد سے کسی نامعلوم مقام پر پاکستانی حکام کی حفاظتی تحویل میں رہیں۔
امریکی وزیر خارجہ کا خیرمقدم
امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے آسیہ بی بی کے بحفاظت کینیڈا میں جانے اور وہاں مقیم اپنی فیملی سے دوبارہ ملنے کا خیرمقدم کیا ہے۔
محکمہ خارجہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال اکتوبر میں سپریم کورٹ کی جانب سے توہین مذہب کے مقدمے میں آسیہ بی بی کی بریت کے بعد یہ ایک اہم قدم ہے۔ آسیہ بی بی اب آزاد ہیں اور ہم ان کے اپنے خاندان سے دوبارہ ملاپ پر بہترین خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ دنیا میں ہر جگہ توہین مذہب کے قوانین کی یکساں مخالفت کرتا ہے کیونکہ وہ آزادیوں کے بنیادی حق کے استعمال کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔
گورنر سلمان تاثیر کا قتل
آسیہ بی بی کے مقدمے کو اس وقت بین الاقوامی توجہ ملی جب پنجاب کے اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر نے ان کے حق میں پریس کانفرنس کی تھی۔ سلمان تاثیر کو بعد ازاں ان کے ایک پولیس محافظ نے اس پریس کانفرنس کی پاداش میں سرِ عام قتل کر دیا تھا۔
اس واقعے کے بعد سے بطور خاص آسیہ بی بی کے کیس کو پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین کے متعلق ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر لیا جاتا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں توہینِ مذہب کے قوانین کا غلط استعمال ہوتا ہے اور ان قوانین کو ختم ہونا چاہیے یا ان میں تبدیلیاں کی جانی چاہئیں۔ تاہم پاکستان میں مذہبی حلقے ان قوانین میں تبدیلی کی مخالفت کرتے ہیں۔