ڈاکٹر عافیہ کو مجرم قرار دے دیا گیا، چھ مئی کو سزا سنائی جائے گی

یہ فیصلہ بدھ کے روز نیویارک میں بارہ رکنی وفاقی جیوری نے سنایا۔ اُنھیں سات الزامات میں قصور وار ٹھہرایا گیا۔ ‘کم از کم دس سال اور زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے’: وکلائے صفائی

امریکی عدالت نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو مجرم قرار دے دیا ہے، اور انیں چھ مئی کو سزا سنائی جائے گی۔

وکلائے صفائی کے مطابق ڈاکٹر صدیقی کو کم از کم دس سال اور زیادہ سے زیادہ عمر قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

بدھ کو مقامی وقت کے مطابق دوپہر دو بجے جیوری نے جب اپنا فیصلہ سنایا تواس وقت کمرہٴ عدالت کے اندر اور باہر پاکستانی اور امریکی صحافیوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔

ڈاکٹر صدیقی نے اپنی وکیل ایلین شارپ کے ذریعے پاکستانی عوام کو پیغام دیا ہے کہ اِس فیصلے پر کوئی ہنگامے یا تشدد نہ کیا جائے۔

وکیلِ صفائی شارپ کے مطابق جب انھوں نے بدھ کی صبح ڈاکٹر صدیقی سے بات کرتے ہوئے انھیں بتایا کہ اگر فیصلہ ان کے خلاف آیا تو پاکستان میں ہنگاموں کا ڈر ہے تو ڈاکٹر صدیقی نے زور دے کر کہا کہ انہیں اللہ پر بھروسہ ہے اور وہ کسی قسم کے پر تشدد ہنگامے نہیں چاہتیں۔

ڈاکٹر صدیقی کی وکیل لِنڈا مورینو کا کہنا ہے کہ چونکہ جیوری کے مطابق ڈاکٹر صدیقی نے پہلے سے اپنے جرم کی منصوبہ بندی نہیں کی تھی، اس لیے انہیں سخت ترین سزا نہیں دی جانی چاہیے۔ اگر استغاثہ انہیں عمر قید کی سزا دلوانے کی کوشش کرتی ہے تو اسے شاید ان شواہد کو سامنے لانا پڑے جنہیں اب تک یہ کہہ کر خفیہ رکھا گیا ہے کہ ان کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں۔

وکیل صفائی مورینو کے مطابق اس کیس میں اپیل دائر کرنے کے لیے ان کے پاس کئی نکات ہیں، جن میں نہ صرف کئی آئینی نکات ہیں بلکہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ذہنی حالت بھی ایک اہم معاملہ ہے جس کی بنیاد پر اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔

وکیل ایلین شارپ کے مطابق اس مقدمے میں صرف اقدامِ قتل کا الزام تھا، اس لیے ڈاکٹر صدیقی کی خفیہ قید خانوں میں مبینہ غیر قانونی حراست پر کوئی جرح نہیں کی گئی۔

البتہ انھوں نے اپیل کی کہ جس کو بھی ڈاکٹر صدیقی کے اُن دو بچوں کے بارے میں علم ہے جو اب تک غائب ہیں تو وہ اطلاع دے کیونکہ‘اس معاملے میں بچے معصوم ہیں۔’

ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جولائی 2008 میں افغانستان کے صوبے غزنی میں افغان پولیس نے ان کے بڑے بیٹے احمد کے ساتھ حراست میں لیا تھا۔ امریکی حکومت کے مطابق ان کے پاس سے ایسی دستاویزات اور کیمیائی مادے ملے تھے جن میں امریکہ پر حملوں کے منصوبے تھے۔

استغاثہ کے مطابق ایک امریکی تفتیشی ٹیم ان سے بات کرنے افغان پولیس کے ہیڈ کوارٹر پہنچی تو انہیں ایک ایسے کمرے میں لے جایا گیا جہاں درمیان میں ایک پردہ ٹنگا تھا۔ یہ نہ جانتے ہوئے کہ اس پردے کے پیچھے ڈاکٹر صدیقی موجود ہیں، ٹیم کے ایک رکن نے اپنی ایم فور رائفل کرسی کے پاس زمین پر رکھ دی۔


استغاثہ کے گواہوں کے مطابق ڈاکٹر صدیقی نے پردے کےپیچھے سے وہ رائفل اٹھا کر امریکی اہلکاروں پر کم از کم دو گولیاں چلائیں۔ ایک افغان مترجم نے انہیں دھکا دے کر ان سے رائفل چھینی اور ایک امریکی فوجی نے ان کے پیٹ میں دو گولیاں ماریں۔ جس کے بعد انہیں علاج کے لیے بگرام کے ہوائی اڈے پر لے جایا گیا اور دو ہفتے بعد امریکہ بھیج دیا گیا۔

ڈاکٹر صدیقی نے عدالت میں اپنے حق میں گواہی دیتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ایک خفیہ جیل میں رکھا گیا تھا جہاں سے انہیں افغان پولیس ہیڈ کوارٹر منتقل کیا گیا۔ انہوں نے پردے کے پیچھے سے امریکیوں کی آوازیں سنیں تو وہ گھبرا گئیں کہ انہیں دوبارہ خفیہ جیل نہ لے جایا جائے۔

وہ پردے کے پیچھے سے جھانک رہی تھیں اور بھاگنے کا موقع ڈھونڈ رہی تھیں جب کسی نے چیخ کر کہا کہ ‘وہ آزاد ہے’ اور انہیں گولی مار دی گئی۔

ڈاکٹر صدیقی کے خاندان والوں کے مطابق انہیں سنہ 2003 میں کراچی سے ان کے دو بچوں سمیت پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے اغوا کر کے امریکیوں کے حوالے کر دیا تھا اور انہیں پانچ سال تک بگرام کے خفیہ جیل خانے میں رکھا گیا جہاں ان پر تشدد بھی کیا گیا۔

ڈاکٹر صدیقی کا بڑا بیٹا احمد کراچی میں اپنی نانی اور خالہ کے پاس ہے جبکہ ان کے باقی دو بچے ابھی تک لا پتا ہیں۔