امریکہ میں زیر حراست پاکستانی نیوروسائنسدان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے مقدمے میں دوسرے دن بھی جیوری کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔
منگل کو سارا دن نیو یارک کی ایک عدالت میں ذرائع ابلاغ کے نمائندے، وکلاء اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے حامی اس انتظار میں بیٹھے رہے کہ کب جیوری کا فیصلہ سامنے آئے۔ جبکہ جیوری کے بارہ ارکان ایک الگ کمرے میں سارا دن صلاح و مشورے میں مصروف رہے اور مختلف اوقات میں عدالت سے مخلتف دستاویزات کی درخواست کرتے رہے۔
ایک دفعہ وہ کمرہ عدالت میں بھی آئے اور انہوں نے اس ایم فوررائفل کامعائنہ کیا جس سے ڈاکٹر صدیقی نے مبینہ طور پر گولیاں چلائی تھیں۔
دن کے اختتام پر ایک دفعہ پھر جج رچرڈ برمن نےجیوری کوہدایات دیں کہ وہ اس مقدمے سے متعلق کوئی خبر نہ سنیں اور نہ پڑھیں اور بدھ کی صبح اس وقت تک اس بارے میں کسی سے بات نہ کریں جب تک وہ دوبارہ عدالت میں جمع نہ ہو جائیں اور انہیں تازہ ترین ہدایات نہ دے دی جائیں۔
وکیل صفائی چارلز سوفٹ کے مطابق یہ کہنا مشکل ہے کہ جیوری اس مقدمے کا فیصلہ کرنے میں کتنا وقت لیتی ہے۔ البتہ انہوں نے امید ظاہر کی کہ جیوری تمام شواہد پر غور کرے گی۔
امریکہ میں اعلٰی تعلیم حاصل کرنے والی ڈاکٹر صدیقی پر الزام ہے کہ انہوں نے افغانستان میں امریکی فوجیوں پر ایک ایم فور رائفل سے گولیاں چلائی تھیں اور جوابی فائرنگ میں خود بھی زخمی ہو گئیں۔ جبکہ خود ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے عدالت میں اس الزام کی تردید کی ہے۔
ڈاکٹر صدیقی کو جولائی 2008 میں غزنی میں افغان پولیس نے حراست میں لیا تھا۔ استغاثہ کے مطابق ان کے پاس سے کچھ ایسے کیمیائی مادے اور دستاویزات برآمد ہوئی تھیں جن میں امریکہ پر حملوں کے منصوبے تھے۔ ایک امریکی ٹیم، جس میں فوج اور ایف بی آئی کے اہلکار شامل تھے، ان سے تفتیش کرنے گئی تھی۔ جب ڈاکٹر صدیقی نے افغان پولیس ہیڈ کوارٹر میں ایک پردے کے پیچھے سے ان پر گولیاں چلائیں۔
گذشتہ ہفتے عدالت میں اپنے بیان میں ڈاکٹر صدیقی نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ایک خفیہ جیل میں قید رکھا گیا تھا جہاں سےانہیں افغان پولیس ہیڈ کوارٹرز منتقل کیا گیا۔ جہاں انہوں نے پردے کے پیچھے سے امریکیوں کی آوازیں سنیں۔ جب وہ جھانک کر دیکھنے لگیں تو انہیں گولی مار دی گئی۔
مقدمے میں پیر کی شام استغاثہ اوروکلا صفائی نےجرح مکمل کی تھی اوراس وقت سے جیوری اپنے صلاح و مشورے میں مصروف ہے۔