بنگلہ دیش: سینیئر صحافیوں کی گرفتاری باعث تشویش

محمود الرحمن، درمیان میں (فائل فوٹو)

ڈھاکا میں صحافیو ں کی ایک تنظیم کے طرف سے جاری ایک بیان شفیق الرحمن کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اس مقدمے میں گرفتار ی " انتہائی غیر معقول " ہے۔

بنگلہ دیش میں پولیس نے ایک سینیئر صحافی کو امریکہ میں مقیم وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے بیٹے کو قتل کرنے کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام میں گرفتار کیا ہے اس کے علاوہ وہ اخبار کا ایک دوسرے مدیر کو بھی گرفتار کرنے کی تیاری کر رہی ہے۔

ہفتے کو ماہنامہ 'مشاق دل' کے مدیر 82 سالہ شفیق الرحمن کی گرفتاری کے بعد پولیس کا کہنا ہے کہ انہوں نے 2012 میں مبینہ طور پر امریکہ کا دورہ کیا تھا جس کا مقصد امریکی تحقیقاتی ادارے 'ایف بی آئی' کے ایک اہلکار کے ساتھ حسینہ کے بیٹے سجیب واجد جائے سے متعلق ذاتی معلومات کے حصول کے لیے ایک خفیہ معاہدہ کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ان پر انہیں اغوا کرکے قتل کرنے کے سازش میں ملوث ہونے کا بھی الزام عائد کیا گیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ شفیق سے تفتیش جاری ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اخبار کے مدیر محمود الرحمن کو بھی گرفتار کر لیا جائے گا جو 2013 میں بغاوت اور دیگر الزامات کے تحت گرفتاری کے بعد جیل میں ہیں۔

شفیق اور محمود دونوں صحافی ہیں اور بتایا جاتا ہے کہ انہیں حزب مخالف کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ 'بی این پی' جماعت کی حمایت حاصل ہے۔

حسینہ نے پیر کو ڈھاکا میں کہا کہ "امریکی تفتیش کاروں نے ایف بی آئی اے کے ایک اہلکار کو بی این پی کے رہنما سے رشوت لیتے ہوئے پکڑا تھا۔ شفیق الرحمن اور محمود الرحمن کے اس سازش میں ملوث ہونے کا معاملہ امریکی عدالت میں بے نقاب ہوا تھا نا کہ کسی بنگلہ دیشی عدالت میں"۔

بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم اور بی این پی کی سربراہ خالدہ ضیاء نے کہا کہ شفیق الرحمن کو گرفتار کر کے حکومت نے اپنے آمرانہ طرز عمل کا اظہار کیا ہے۔

خالدہ ضیاء نے ایک بیان میں کہا کہ "اپنی تحریروں میں شفیق الرحمن نے مسلسل حکومت کی ناکامیوں اور بدعنوانی کو بے نقاب کیا۔ ان کے خلاف جھوٹے الزامات عائد کیے گئے ہیں انہیں اس لیے گرفتار کیا گیا ہے کیونکہ حکومت انہیں دوسری طرح لکھنے تک محدود نہیں کر سکی ہے"۔

گزشتہ سال ایک امریکہ عدالت نے ایف بی آئی کے ایک سابق اہلکار رابرٹ لسٹیک کو ایک بنگلہ دیشی تارک وطن رضوی احمد عرف سیزر سے رشوت وصول کرنے کے جرم میں پانچ سال قید کی سزا سنائی تھی۔

امریکی محکمہ انصاف کے مطابق لسٹیک کو بنگلہ دیش کے ایک اہم شہری کے متعلق ذاتی معلومات اور قانون کے نفاذ سے متعلق دستاویزات کے عوض رشوت وصول کرنے کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی۔ یہ دستاویزات ایک سیاسی مخالف کے استعمال کے لیے تھیں۔

جبکہ امریکہ میں مقیم بی این پی کے ایک رہنما کے بیٹے احمد رضوی کو اس مقدمے میں 42 ماہ قید کی سزا سنائی گئی اور وہ اب امریکہ میں جیل میں ہیں۔

گزشتہ سال احمد کو سزا ملنے کے بعد ڈھاکا میں پولیس نے بی این پی کے کچھ رہنماؤں کے خلاف حسینہ واجد کے بیٹے سجیب کو اغوا اور قتل کرنے کی سازش میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا۔

شفیق الرحمن کا نام نا تو امریکہ میں رشوت کے مقدمے میں اور نا ہی بنگلہ دیش میں اس مقدمے میں شامل تھا۔ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ تفتیش کے دوران ان کے اس سازش میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کا معاملہ سامنے آیا۔

ڈھاکا میں صحافیو ں کی ایک تنظیم کے طرف سے جاری ایک بیان شفیق الرحمن کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان کی اس مقدمے میں گرفتار ی " انتہائی غیر معقول " ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ "شفیق الر حمان جمہوریت، اور اچھی طرز حکومت کی حمایت میں لکھنے کی وجہ سے معروف ہیں۔ ان کی گرفتاری ہماری آزادی اظہار کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے"۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت اختلاف رائے کو دبانے کے لیے سخت حربے استعمال کر رہی ہے جن کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ یہ بنگلہ دیش میں آزادی اظہار اور صحافت کے لیے خطرے کا باعث ہو سکتے ہیں۔

تاہم حکومت اس تاثر کو مسترد کرتی ہے۔