قانونی جواز کے بغیر حراست سنگین جرم ہے: اسلام آباد ہائی کورٹ

فائل فوٹو

عدالت نے اپنے حکم نامے میں مزید کہا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

پاکستان کی ایک عدالت نے کہا ہے کہ "قانونی جواز کے بغیر کسی بھی پاکستانی شہری کو تحویل میں رکھنا ایک سنگین جرم ہے" اور ایسے معاملات میں مبینہ طور ملوث عہدیداروں کے خلاف فوجداری قانون کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے یہ بات اسلام آباد سے رواں سال جنوری میں لاپتا ہونے والے ملک کے ایک سرکار ی ادارے سے منسلک سائنسدان اور ان کی اہلیہ کی مبینہ جبری گم شدگی کے معاملے کی سماعت کے بعد 28 جون کو جاری ہونے والے ایک مختصر حکم نامے میں کہی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے قبل ازیں نوزیر حسن اور ان کی اہلیہ عمیمہ حسن کے گمشدگی کے معاملے کی سماعت کے دوران وزارت دفاع کی طرف سے عدالت میں جمع کروائی گئی رپورٹ پر تحفطات کا اظہار کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ لاپتہ ہونے والے یہ دونوں افراد وزارت دفاع کے تحت کام کرنے والے انٹیلی جنس اداروں کی تحویل میں نہیں ہیں۔

نوزیر کے والد خیب حسن نے اپنے بیٹے اور بہو کے بازیابی کے لیے اپنے وکیل انعام رحیم اسلام کے ذریعے ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ 12 جنوری کو بعض نقاب پوش مسلح افراد نے ان کے گھر میں داخل ہو کر ناصرف ان کے بیٹے اور بہو کر ہراساں بلکہ جبری طور پر اغوا کر کے انہیں اپنے ساتھ لے گئے اور جس کے بعد انہوں نے اس واقعہ کی اطلاع پولیس کو دی تھی ۔

انعام رحیم نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جنوری سے اب تک جبری گم شدگیوں کے 90 واقعات سامنے آ چکے ہیں۔

سماعت کے بعد 28 جون کو جاری ہونے والےعدالت کے مختصر تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی پاکستانی شہری کو بغیر کسی قانونی جواز کے تحویل میں رکھنا 'سنگین جرم 'ہے اور اس کے ذمہ دار افراد کو فوجداری قانون کے تحت کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

عدالت نے اپنے حکم نامے میں مزید کہا کہ شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عدالت نے وزارت دفاع کے عہدیداروں کی استعداد کار کے بارے میں سوال اٹھاتے ہوئےسیکرٹری وزارت دفاع سے اس بارے میں عدالت میں ایک تفصیلی رپورٹ جمع کروانے کیلئے کہا ہے کہ اب تک لاپتا ہونے والےنوریز حسن اور ان کی اہلیہ امیمہ حسن کو کیوں بازیاب نہیں کروایا جا سکا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ عدالت نے اسلام آباد انتظامیہ اور پولیس اور متعلقہ اداروں سے بھی آئندہ تین ہفتوں کے اندر رپورٹ اور وضاحت طلب کی ہے کہ پولیس اور انتظامیہ ان افراد کی بازیابی کے لیے فوری کارروائی کیوں نہیں کر سکی۔

پاکستان کے مختلف شہرو ں سے لوگوں کے لاپتا ہونے کے واقعات اکثر منظر عام پر آتے رہتے ہیں اور ان افراد کے اہل خانہ اپنے عزیزوں کی جبراً گم شدگیوں کا الزام ملک کےخفیہ اداروں پر عائد کرتے ہیں۔

پاکستانی حکومت اور سیکورٹی کے ادارے ایسے الزامات کو مسترد کرتے رہے ہیں کہ ریاستی ادارے جبری گمشدگیوں کے واقعات میں کسی طور ملوث ہیں۔

دوسری طرف لاپتا ہونے والے افراد کی مبینہ جبری گمشدگیوں کے واقعات سے متعلق انسانی حقوق کی تنظیمیں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے ان افراد کی بازیابی کے لیے موثر اقدامات کا مطالبہ کرتی آ رہی ہیں۔۔

انسانی حقوق کے سرگرم کارکن اور انسانی حقوق کے موقر ادارے سے منسلک کامران عارف نے اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا" لاپتا افراد کے معاملات کو حل کرنا حکومت کی ذ مہ داری ہے۔ عدالتیں منصف ہیں، وہ فیصلہ کر سکتی ہیں۔ ہدایات دی سکتی ہیں ۔
انہوں نے مزید کہا کہ "یہ ریاست اور انتظامیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ سب سے پہلے لاپتا افراد کے مقدمات درج کریں اور قانون کے مطابق ان کی تفتیش کریں اور جو لوگ ان واقعات کے ذمہ دار ہیں ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے۔ "

لاپتا ہونے والے افراد کے معاملات پر سپریم کورٹ بھی فیصلہ دی چکی ہے اور حال ہی میں عدالت عظمیٰ نے اس معاملے پر ایک خصوصی سیل قائم کرنے کا بھی کہا ہے۔

پاکستانی حکومت نے 2011ء میں جاوید اقبال کی سربراہی میں لاپتا افراد کے معاملات کی تحقیقات کے لیے کمیشن تشکیل دیا تھا جو اب تک سیکڑوں لاپتا ہونے والے افراد کے معاملات نمٹا چکا ہے۔ تاہم متعدد لاپتا افراد کے معاملات اب بھی حل طلب ہیں۔