خون کے ایک نئے ٹیسٹ کی بدولت دماغی مرض الزائمر کی درست تشخیص ممکن ہوگئی ہے جس کے بعد مہنگے ٹیسٹ اور پیچیدہ طریقوں سے چھٹکارا مل جائے گا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ نئے ٹیسٹ سے تشخیص آسان، سستی اور وسیع پیمانے پر ممکن ہوجائے گی۔
خون کے ٹیسٹ سے معلوم ہوسکے گا کہ بھولنے کی بیماری میں مبتلا افراد کو الزائمر ہے یا وہ کسی اور مسئلے کا شکار ہیں۔ یہ ٹیسٹ بیماری لاحق ہونے سے 20 سال پہلے ان علامات کو شناخت کرسکے گا جو بعد میں اس کا سبب بنتی ہیں۔
اس بات کا انکشاف سائنسی جریدے جاما میں شائع ہونے والے تحقیقی مقالے میں کیا گیا ہے جو الزائمر ایسوسی ایشن کی بین الاقوامی کانفرنس میں پیش کیا گیا تھا۔ امریکہ میں تقریباً 60 لاکھ اور دنیا بھر میں لگ بھگ 3 کروڑ افراد لاعلاج مرض الزائمر میں مبتلا ہیں۔ 2050 تک یہ تعداد دوگنا ہوجانے کا امکان ہے۔
ماہرین کو توقع ہے کہ نیا ٹیسٹ دو سے تین سال میں کلینکل استعمال کے لیے دستیاب ہوجائے گا اور اس سے ان لوگوں کو بھی فائدہ ہوگا جن میں الزائمر کی علامات نہیں لیکن وہ مستقبل میں اس کا شکار ہوسکتے ہیں۔
نیویارک ٹائمز کے مطابق، تحقیق میں شامل کیلی فورنیا یونیورسٹی کے ڈاکٹر مائیکل وینر نے کہا کہ یہ ٹیسٹ بالکل درست نشاندہی کرتا ہے کہ کس شخص کے دماغ کو الزائمر متاثر کررہا ہے اور ان لوگوں کے بارے میں بھی ٹھیک ٹھیک بتا دیتا ہے جو بظاہر صحت مند ہوتے ہیں۔
یہ ٹیسٹ بیماری سے نہیں بچاتا، اس کا علاج بھی نہیں کرتا لیکن علاج تبھی ہوسکتا ہے جب درست تشخیص ہوجائے۔ اور تشخیص کا درست اور سستا طریقہ مل جانا خوش آئند ہے۔
خون کے اس ٹیسٹ سے الزائمر پر تحقیق کرنے والوں کو کچھ امید ملی ہے ورنہ انھیں اس کے علاج میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس بیماری میں مبتلا افراد کی یادداشت ختم ہوجاتی ہے اور وہ آزادانہ طور پر حرکت کے قابل نہیں رہتے۔
ماہرین نے کہا ہے کہ خون کے ٹیسٹ سے تشخیص تیز اور سستی ہونے سے مریضوں کے لیے نئی تھیراپیز کی تلاش میں تیزی آئے گی۔ اس سے پہلے تشخیص بہت مہنگی تھی اور اس میں طویل عرصہ لگتا تھا، کیونکہ اس کا انحصار دماغ کے اسکین اور ریڑھ کے سیال مادے کے تجزیے پر تھا۔
اس وقت الزائمر کی تشخیص کا انحصار عموماً مریض کی یادداشات اور اس کے رشتے داروں کے انٹرویوز سے کیا جاتا ہے۔ اس طرح کی تشخیص اکثر درست نہیں ہوتی، کیونکہ ڈاکٹروں کو الزائمر اور بھولنے کی دوسری بیماریوں میں شناخت کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔