تنازعات کے باعث کانگو میں تقریبا ڈیڑھ لاکھ بچے تعلیم سے محروم: اقوام متحدہ

فائل فوٹو

بعض اسکولوں پر جنگجوؤں نے قبضہ کر لیا ہے جبکہ اسکولوں کے اساتذہ یا تو واپس نہیں آنا چاہتے یا ایسا کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال یعنی یونیسیف کے مطابق افریقہ کی وسطی جمہوریہ کانگو میں ملیشیاء اور سکیورٹی فورسز کے درمیان لڑائی اور عام شہریوں کے خلاف ہونے والے حملوں کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں بچے اسکول نہیں جا سکتے ہیں۔

یونیسیف نے جمعہ کو کہا کہ گزشتہ سال اگست میں ایک مقامی ملیشیاء اور سرکاری فورسز کے درمیان لڑائی شروع ہونے کے بعد کانگو کے کسائی کلاں کے علاقے میں سیکڑوں کی تعداد میں افراد ہلاک اور دس لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔

یونیسیف نے کہا کہ لڑائی کی وجہ سے اس علاقے کے کم ازکم ایک لاکھ پچاس ہزار بچوں کو اسکولوں سے باہر رہنا پڑا جبکہ 600 سے زائد پرائمری اور اسکینڈری اسکول حملوں میں تباہ ہو گئے ہیں۔

بعض اسکولوں پر جنگجوؤں نے قبضہ کر لیا ہے جبکہ اسکولوں کے اساتذہ یا تو واپس نہیں آنا چاہتے یا ایسا کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہے جبکہ دیگر اسکولوں کو وہ خاندان عارضی پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کر رہے ہیں جو لڑائی کی وجہ سے بے گھر ہو گئے۔

کانگو میں اقوام متحدہ کے قائم مقام نمائندے تاج اویل نے کہا کہ "اسکول ایسی محفوظ جگہیں ہونی چاہیئں جہاں بچے سیکھ سکیں اور بے گھر ہونے کے دباؤ سے باہر نکل سکیں اور ان یادوں کو بھلا سکیں جو کچھ انھوں نے دیکھا ہے۔"

یونیسیف نے کہا کہ کسائی کلاں کے علاقے میں پرائمری اسکول جانے کی عمر کے ہر 10 میں سے ایک بچے کی تعلیم کا سلسلہ منقطع ہوگیا ہے جبکہ کئی اسکول کئی ماہ تک بند رہے۔

صدر جوزف کبیلا کے اپنے مدت صدارت کے بعد اقتدار چھوڑنے سے انکار پر کانگو میں نسلی تشدد بڑے پیمانے پر پھیل چکا ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی بہبود کے دفتر کے مطابق کانگو بھر میں بے گھر ہونے والوں کی تعداد 37 لاکھ تک پہنچ گئی ہے اور ان میں سے 13 لاکھ افراد وہ ہیں جنہیں صرف کسائی کے علاقے سے اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا۔