شام میں عام معافی کے اعلان کے بعد لاکھوں خاندان اپنے پیاروں کی رہائی کے منتظر

شام کے صدر بشار الاسد (ٖفائل فوٹو)

شام کے صدر بشارالاسد نے ماہِ رمضان کے احترام میں عام معافی کا فرمان جاری کیا ہے اور اب رمضان کے اختتام کے بعد لاکھوں شامی باشندے اپنے پیاروں کی رہائی کے منتظر ہیں۔ فرمان کے مطابق اس میں وہ قیدی شامل نہیں ہیں جن کے ہاتھ خون میں رنگے ہوئے ہیں۔ اس میں یہ بھی واضح نہیں ہے کہ مارچ 2011 میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کے دوران جو ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے ، ان کا کیا بنے گا۔

قاہرہ سے ہمارے نامہ نگار ایڈورڈ یارانیان نے خبر دی ہے کہ پچھلے ہفتے یہ صدارتی فرمان جاری ہوا تھا اور اس کے بعد سے ہزاروں شامی دمشق کے بڑے پل پر جمع ہیں اور اپنے پیاروں کی رہائی کا انتظار کر رہے ہیں۔

اسی جگہ ایک نوجوان لڑکی اپنے والد کی راہ تک رہی تھی۔ اس نے بتایا کہ انہیں نو سال پہلے قید کر کے کہیں لے جایا گیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک مجھے ان کے بارے میں کوئی علم نہیں۔ مجھے نہیں معلوم ہے کہ وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔

ایک اور نوجوان شخص کا کہنا تھا کہ گیارہ سال پہلے ان کے والد کو گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں ایک جیل سے دوسری جیل منتقل کیا جاتا رہا۔ اسی طرح ان کے بھائی کوبھی نو سال پہلے پکڑا گیا اوراب تک مجھے ان دونوں کے بارے کوئی علم نہیں۔

شامی حکومت نے ایک فرمان 2012 میں جاری کیا تھا جس کے تحت ان میں سے اکثر کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ شام کے نائب وزیر انصاف جج نظارسادقنی نے شامی ٹی وی کو بتایا کہ مبینہ الزام کے تحت جن لوگوں کو حراست میں لیا گیا تھا، ان میں سے کچھ اس صدارتی معافی کے تحت رہا کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جن جرائم کو اس معافی کے زمرے میں لایا گیا ہے، ان میں ملک کی سلامتی کونقصان پہنچانا، عوام میں خوف وہراس پھیلانا، اورعوامی انفرا سٹراکچر کو تباہ کرنا شامل ہیں، بشرطیکہ اس کی وجہ سے خوں ریزی نہ ہوئی ہو۔

پیرس یونی ورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر خطّار ابو دیاب نے وی اے او کو بتایا کہ ان کے خیال کے مطابق شام کے صدر کا یہ حکم نامہ بیرونی دنیا میں اپنی صفائی پیش کرنے کے لیے جاری کیا گیا ہے۔ مگر دمشق کے پل پر کھڑے ہوئے لوگ اسد حکومت کی بے حسی کو نوٹ کررہے ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کی اس کوشش کا زیادہ اثر نہیں ہوگا، کیوںکہ اس کے نتیجے میں بہت بڑی تعداد میں قیدی رہا نہیں کیے جائیں گے اور نہ ان بہت سے لوگوں کا پتہ چل سکے گا جو لاپتہ ہیں۔

شامی حکومت کے فوجی پراسیکیوٹرکرنل محمد حسّام نے شامی ٹی وی کو بتایا کہ یہ معافی اس لیے بھی ضروری تھی کہ پچھلے کئی برسوں میں بہت شہروں اور قصبوں نے ہتھیار ڈال کر حکومت کی اطاعت قبول کرنے کے بعد مفاہمتی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، چنانچہ ان معاہدوں کو قانونی شکل دینا ضرری تھا۔

شامی حکومت کے تجزیہ کار غسّام یوسف نے عرب میڈیا کو بتایاکہ کہ شام کے علاوہ مصر، سعودی عرب اور متحدہ امرات جیسی عرب ریاستوں میں مفاہمتی عمل جاری ہے اور اس حوالے سے اب ترکی شام کے کئی حزب مخالف گروپوں کی حمایت کم کر دے گا، اس سے اندرون ملک کشیدگی کو کم کرنے میں مدد ملے گی۔