پاکستان کے خلاف تادیبی کارروائی سود مند نہیں ہو گی: سابق امریکی سفیر

سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن

اسلام آباد کا مؤقف ہے کہ پاکستان نے ملک میں موجود ہر قسم کے دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی ہے اور ملک میں ایسی محفوظ پناہ گاہیں موجود نہیں جو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہوں۔

پاکستان میں امریکہ کے سابق سفیر سفیر رچرڈ اولسن نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اس بات کا امکان بہت ہی کم ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی پاکستان سے متعلق ان کے بقول'باعث خفت اور تادیبی پالیسی 'کسی طور پر سود مند ہو سکتی ہے۔

امریکہ کے موقر اخبار نیویارک ٹائمز میں لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں سفیر اولسن نے کہا کہ پاکستان کی جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے امریکہ کے مقابلے میں پاکستان بہتر حیثیت کا حامل ہے۔ اس وجہ سے صدر ٹرمپ کی پاکستان سے متعلق تازہ ترین پالیسی کی کامیابی کا امکان ان کے بقول کم ہے۔

واضح رہے کہ سفیر اولسن 2012 سے 2015 تک اسلام آباد میں امریکہ کے سفیر کے طور پر کام کر چکے ہیں اور بعد ازاں وہ افغانستان اور پاکستان سے متعلق امریکہ کے خصوصی نمائندے کے حیثیت سے بھی فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے یکم جنوری کو اپنے ایک ٹوئٹر بیان میں کہا تھا کہ امریکہ نے گزشتہ 15 سالوں کے دوران پاکستان کو 33 ارب ڈالر کی خطیر مالی امداد دی ہے اور اس کے بدلے میں پاکستان نے جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان نے اُن دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کئے جنہیں وہ افغانستان میں تلاش کرتے رہے۔

اسلام آباد کا مؤقف ہے کہ پاکستان نے ملک میں موجود ہر قسم کے دہشت گردوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی ہے اور ملک میں ایسی محفوظ پناہ گاہیں موجود نہیں جو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہوں۔

بعض مبصرین سفیر اولسن کے رائے سے اتفاق کرتے ہوئے اس بات پر زور دیتے ہیں کہ امریکہ اور پاکستان کے باہمی مفادات کے لیے اسلام آباد اور واشنگٹن کے باہمی تعاون کا جاری رہنا ضروری ہے۔

سفیر اولسن نے اپنا مضمون میں لکھا کہ ٹرمپ انتظامیہ یہ کہہ چکی ہے کہ افغانستان کے تنازع کا حل مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہے تاہم ان کے بقول یہ سمجھنا مشکل ہے کہ اس کے لیے کوئی سفارتی عمل کیوں شروع نہیں ہو سکا ہے۔

سلامتی کے امور کے ماہر طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ ان کے بقول فی الحال ایسی کسی سفارتی کوشش کا امکان نہیں ہے۔

" اس وقت صدر ٹرمپ کی پالیسی یہ کہ اس وقت ہم بات چیت نہیں کریں گے ہم اس صورت میں بات کریں گے جب ہم جنگی میدان میں جیت جائیں گے یا جب ہماراپلہ بھاری ہو گا اسی صورت میں طالبان سے بات کریں گے۔ لیکن اگر ان کی یہ پالیسی ہے تو پھر آپ بات چیت کی توقع کیسے رکھ سکتے ہیں۔"

افغان امور کے ماہر اور سینئر صحافی رحیم اللہ یوسف زئی کا کہنا ہے کہ امریکہ کے اندر بعض حلقے اس بات ہر زور دیتے رہے کہ ٹرمپ کے پاکستان اور خاص طور پر افغانستان سے متعلق پالیسی کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

" ممکن ہے کہ آگے جا کر جب یہ احساس ہو کہ افغانستان کے فوجی حل کے حوالے سے پیش رفت نہیں ہو رہی اور جنگ تعطل کا شکار ہے تو شاید پھر وہ اس پالیسی کا دوبارہ جائزہ لیں تو پھر وہ پاکستان کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ "

امریکہ کی طرف سے پاکستان سے متعلق سخت بیانات کے بعد امریکہ نے پاکستان کی سیکورٹی امداد بھی معطل کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات میں مزید تناو پیدا ہو گیا۔

رچرڈ اولسن کا کہنا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کے حل کے لیے پاکستان کا تعاون نہایت ضروری ہے اور ان کے بقول اس کا حصول سفارتی طریقہ سے ہی ممکن ہے۔

تاہم طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ اس کے لیے امریکہ کو پاکستان سے متعلق اپنی نئی پالیسی کا جائزہ لینا ضروری ہے جس کا امکان ان کے بقول فی الحال نہیں ہے۔