'پاکستان میں مذہبی آزادی خطرے میں ہے'

فائل

پاکستان نے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے اس بیان پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا ہے جس میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں مذہبی آزادی خطرے سے دوچار ہیں۔

مذہبی آزادی سے متعلق سالانہ عالمی رپورٹ کے اجرا کے موقع پر امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان میں مذہبی آزادی کو سنگین خطرہ لاحق ہو گیا ہے جہاں دو درجن سے زائد افراد کو توہین مذہب کے جرم میں سزائے موت یا عمر قید کی سزا سنائی جا چکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں احمدی برداری کو سماجی امتیاز کا بھی سامنا ہے۔

انہوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ پاکستان کے نئے وزیر اعظم (شاہد خاقان عباسی) اور ان کی حکومت بین المذاہب ہم آہنگی کو فروغ اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کریے گی۔

جمعرات کو وزارت خارجہ کی معمول کی ہفتہ وار بریفنگ کے دوران ترجمان نفیس ذکریا سے جب امریکی وزیر خارجہ کے بیان سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا وہ میڈیا رپورٹس پر ردعمل کا اظہار نہیں کرتے۔

نفیس ذکریا نے کہا کہ مذہبی آزادی سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کی سالانہ رپورٹ کو پڑھنے کے بعد ہی اس پر باقاعدہ ردعمل کا اظہار کیا جائے گا۔

دوسری طرف پاکستان کے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے سربراہ نے سابق جسٹس علی نواز چوہان نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اپنے ردعمل میں کہا کہ" میں اس بات سے انکار نہیں کروں گا (جو کچھ رپورٹ میں کہا گیا ہے) لیکن اسے بڑھا چڑھا کر بیان کیا جا رہا ہے لیکن اس میں کچھ سچائی ہے۔ وجہ یہ ہے اپنے (معاشرے کے) اندر تناؤ ہے وہ (مذہبی اقلیتیں) ڈرتی ہیں اس وجہ سے ہمیں بھی تشویش ہے اس کے لیے ہم کوشش کر رہے اور حکومت سے بھی کہیں گے (کیونکہ حکومت) بھی نہیں چاہتی کہ (مذہبی) ہم آہنگی متاثر ہو۔"

انسانی حقوق کے موقر غیر سرکاری ادارے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سربراہ مہدی حسن کہتے ہیں کہ انتہا پسندی سماج کی مذہبی بنیادوں پر تفریق کا باعث بنی۔

جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ" جو مذہبی اقلیتیں ہیں خاص طور احمد برادری ہے اس کو شدید مشکلات ہیں بے شمار احمدی خاندان ملک سے باہر چلے گئے ہیں اسی طرح بلوچستان اور سندھ میں رہنے والے بعض ہندو خاندان بھارت چلے گئے ہیں اور جو مسیحی برادری ہے وہ بھی کچھ زیادہ خوش نہیں ہے۔"

تاہم حکومت میں شامل عہدیدار یہ کہتے رہے ہیں کہ ملک میں عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کی وجہ سے تمام شہری ہی نشانہ بنتے رہے لیکن حکام کے بقول اب جبکہ ملک میں قانون نافذ کرنے والے ادورں کی کارروائیوں کی وجہ سے صورت حال میں بتہری آئی ہے تو مذہبی اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے انتظامی سطح پر بھی کئی اقدمات کیے گئے ہیں۔ علی نواز نے کہا کہ حکومت نے اشتعال انگیز تقاریر اور منافرت پر مبنی لٹریچر کی اشاعت و تقسیم کی روک تھام کے لیے بھی موثر اقدامات کیے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے اقلتیوں کے قومی دن کے موقع پر پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے اپنے ایک پیغام میں مذہب، رنگ و نسل اور عقیدے سے بالا تر ہو کر ہر شہری کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمام شہریوں کے حقوق برابر ہیں۔