مغربی کنارے میں 1980 کے دور کا بوئنگ طیارہ ریستوران میں تبدیل

اس ریستوران کو فلسطینی اتھارٹی اور اردن کے جھنڈوں سے سجایا گیا ہے۔

فضائی سفر کے دوران جہازوں میں مسافروں کو طرح طرح کے پکوان تو فراہم کیے جاتے ہیں البتہ کیا آپ نے کبھی زمین پر کھڑے جہاز میں بیٹھ کر مزیدار کھانوں سے لطف اٹھانے کے بارے میں سوچا ہے؟

مغربی کنارے کے شہر نابلس سے قریب پہاڑی علاقے میں بوئنگ 707 طیارے کو دو فلسطینی جڑواں بھائیوں 60 سالہ عطا اور خمیص ال سیرافی نے ریستوران میں تبدیل کیا ہے۔

اس ناقابلِ اُڑان طیارے کے کیبن میں لکڑی کا فرش لگایا گیا ہے جب کہ اس کیبن پر سفید رنگ کا پینٹ کیا گیا ہے۔

طیارے کے کیبن سے نشستیں بھی نکال دی گئی ہیں اور اس میں جلد میزیں رکھی جائیں گی۔

اس ریستوران کو فلسطینی اتھارٹی اور اردن کے جھنڈوں سے سجایا گیا ہے جب کہ اس کا نام ’دی پیلیسٹینئن جورڈینئن ایئرلائن ریسٹورنٹ اینڈ کافی شاپ ال سیرافی نابلس‘ رکھا گیا ہے۔

اس ناقابلِ اُڑان طیارے کے کیبن میں لکڑی کا فرش کر کے اس پر سفید رنگ کا پینٹ کیا گیا ہے۔

عطا نے بتایا کہ وہ اور ان کے بھائی دو دہائی قبل اسکریپ میٹل ٹریڈرز (پرانے دھاتی سامان کا کاروبار) کا کام کرتے تھے۔ اس دوران انہیں اسرائیل کے شمالی شہر کریات شمونا میں موجود 1980 کی دہائی کے ایک تباہ حال مسافر بردار طیارے کی موجودگی کا معلوم ہوا۔

ان کے بقول انہوں نے یہ طیارہ 1999 میں ایک لاکھ ڈالر میں خریدا تھا۔

فلسطینی اتھارٹی کے زیرِ انتظام علاقوں میں کوئی ہوائی اڈا موجود نہیں ہے اور یہاں کے شہریوں کو دوسرے ممالک جانے کے لیے اردن کا رخ کرنا پڑتا ہے۔

جڑواں بھائیوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے جہاز کے مالک سے بات چیت کر کے اس کے انجن کو نکال دیا تھا جب کہ اسے اسرائیل سے فلسطینی علاقے لانا ایک کٹھن مرحلہ تھا۔

ان بھائیوں کو طیارہ موجودہ مقام تک لانے کے لیے اسرائیل کی کمپنی کو 20 ہزار ڈالرز کی رقم ادا کرنی پڑی۔

انہوں نے بتایا کہ انہیں طیارہ اس طرح موصول ہوا تھا کہ وہ اڑان بھرنے کے قابل نہیں تھا۔

فلسطینی جڑواں بھائیوں کا کہنا تھا کہ وہ 2000 سے اس طیارے کو ایک ریستوران میں تبدیل کرنا چاہ رہے تھے لیکن مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے کنٹرول کے خلاف احتجاج کی وجہ سے ان کا یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہو گیا۔

خمیص ال سیرافی نے بتایا کہ انہوں نے دو برس قبل دوبارہ اس منصوبے کی بحالی کے بارے میں سوچا لیکن کرونا وبا کی وجہ یہ دوبارہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔

علاوہ ازیں ان کا کہنا تھا کہ انہیں امید ہے کہ اب بالآخر ان کا یہ منصوبہ مکمل ہو جائے گا۔

اس خبر میں معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔