پاکستانی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو رہی: دستگیر

(فائل)

"کچھ حلقے جن میں بھارت سرفہرست ہے، خیال ہے کہ شاید یہ تنظمیں اب بھی ہندوستان پر حملہ کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔ لیکن ضرب عضب اور ردالفساد (آپریشنز) کے نتیجے میں ان تنظمیوں، بشمول حقانی نیٹ ورک کی پاکستان میں کوئی محفوظ پناہ گاہیں نہیں ہیں اور پاکستان کے سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو رہی ہے"

پاکستان کے وزیر دفاع خرم دستگیر نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ ملک کے اندر ایسی محفوظ پناہ گاہیں موجود نہیں جو دہشت گردی کے لیے کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہوں۔

خرم دستگیر نے نجی ٹی وی چینل 'جیو نیوز' سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ حال ہی میں چین مییں منعقد ہونے والے 'برکس' سربراہ اجلاس کے اعلامیے میں پاکستان کا نام لیے بغیر جن شدت پسند تنظمیوں کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے ان میں سے لشکر طیبہ، جیش محمد اور حزب التحریر کو پاکستان پہلے ہی کالعدم قرار دے چکا ہے، جبکہ ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) کو پاکستان نے کبھی بھی تسلیم نہیں کیا اور ان کے خلاف ملک کے اندر بھرپور کارروائی کی گئی ہے۔

خرم دستگیر نے کہا کہ "کچھ حلقے جن میں بھارت سرفہرست ہے، خیال ہے کہ شاید یہ تنظمیں اب بھی ہندوستان پر حملہ کرنے کے لیے استعمال ہو رہی ہیں۔ لیکن ضرب عضب اور ردالفساد (آپریشنز) کے نتیجے میں ان تنظمیوں، بشمول حقانی نیٹ ورک کی پاکستان میں کوئی محفوظ پناہ گاہیں نہیں ہیں اور پاکستان کے سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو رہی ہے۔"

پاکستانی وزیر دفاع نے مزید کہا کہ ملک بھر میں جاری آپریشن ردالفساد کا محور اب ان تنطیموں کی باقیات کو ختم کرنے پر ہے جو اب بھی ملک میں موجود ہیں۔

خرم دستگیر نے کہا، اگرچہ بعض تنظمیں ملک کے سیاسی دھارے کا حصہ بننے کی کوشش کر رہی ہیں، لیکن، ان کے بقول، ''ان کا تدارک کرنا ضروری ہے''۔

انہوں نے کہا کہ "ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج ہے کہ اگر وہ ایک سویلین (سیاسی) چہرے کے ساتھ پاکستان کے (سیاسی) عمل میں حصہ لینے کی کوشش کریں، ہر صورت میں، ہمیں ان کا تدارک کرنا پڑے گا۔"

خرم دستگیر کا مزید کہنا تھا کہ اس بارے میں ہر سطح پر غورفکر ہونا چاہیے کہ انتہا پسندی پر مبنی سوچ کو ختم کرکے کس طرح ان لوگو ں کو ریاست کی عمل داری میں لایا جا سکتا ہے۔

دفاعی امور کے تجزیہ کار اسد منیر کا کہنا ہے کہ اگر ریاست لوگوں کو کسی خاص مقصد کے لیے استعمال کرے اور پھر وہ اپنی پالیسی بدل کر کہے کہ وہ یہ جہاد جاری نہیں رکھے گی، تو، ان کے بقول، ''پھر یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان لوگوں کو سماج کا دوبارہ حصیہ بننے میں مدد دے''۔

جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ"میرا خیال یہ ہے کہ شدت پسندی پر مبنی سوچ کو تبدیل کرنا اتنا مشکل کام نہیں ہے اگر لوگ رضامند ہوں اور اگر اس سوچ کو تبدیل کرنا کا جو صحیح طریقہ ہے اگر وہ استعمال کریں، تو ہن مے اس کے بہت حوصلہ افزا نتائج دیکھے ہیں اور 90 فیصد لوگ شدت پسندی سے تائب ہو جاتے ہیں۔ "

پاکستانی حکومت میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندی سے نمٹنے کیے لیے جہاں فوج نے اہم کردار ادا کیا، وہیں حکومت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی استعدادِ کار بڑھانے کے لیے کئی اقدمات کیے ہیں۔