پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مسلم لیگ ن کے رہنما کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی گرفتاری کو شرمناک عمل قرار دیتے ہوئے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس واقعے پر وہ شرمندہ ہیں۔
کراچی میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ سندھ میں ان کی جماعت کی حکومت کے ہوتے ہوئے اس واقعے کے بعد وہ اپنا منہ دکھانے کی قابل نہیں رہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کیپٹن صفدر کے خلاف کیس کو کمزور قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان بھی جب بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار پر حاضر ہوتے رہے، تب بھی اس قسم کی سیاسی نعرے بازی کی جاتی رہی ہے۔ اسی طرح کالعدم تنظیموں کے کارکن بھی مزار قائد پر نعرے بازی کرتے رہے مگر کسی کے خلاف ایف آئی آر کا اندراج عمل میں نہیں لایا گیا۔
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ صبح سویرے کیپٹن صفدر کو ہراساں کر کے انہیں گرفتار کرنا سندھ کے عوام کی تضحیک ہے جنہوں نے مریم نواز کو پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب کی دعوت دی تھی۔
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت اس واقعے کی مکمل تحقیقات کرائے گی۔
تیس سے زائد پولیس افسران کی جانب سے رخصت کی درخواستیں
ادھر دوسری جانب سندھ پولیس کے دو درجن سے زائد اعلیٰ عہدے داروں کی جانب سے طویل رخصت کی درخواستیں جمع کرا دی گئی ہیں۔ ان میں ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ عمران یعقوب منہاس سمیت متعدد ایڈیشنل آئی جیز، ڈی آئی جیز، ایس ایس پی انٹیلی جنس، ایس ایس پی ضلع شرقی کراچی، ایس ایس پی سکھر اور دیگر اعلیٰ پولیس افسران شامل ہیں۔
ایس ایس پی ضلع شرقی ساجد امیر سدوزئی نے آئی جی سندھ کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج کے حالیہ واقعے میں پولیس کی ہائی کمان کو تضحیک کا نشانہ بنایا گیا اور ان سے بدسلوکی کی گئی جس سے سندھ پولیس کا مورال گرا اور اسے دھچکہ پہنچا ہے۔ اس دباؤ اور تھکاوٹ کی صورتحال میں ان کے لئے پیشہ وارانہ انداز سے کام جاری رکھنا بے حد مشکل ہے اور اس صورتحال سے نکلنے کے لئے انہیں ایک ماہ کی رخصت دی جائے۔
یہ بے عزتی صوبائی حکومت کی جانب سے نہیں بلکہ " کہیں اور " سے ہوئی : بلاول بھٹوزرداری
چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس صورتحال پر بھی اپنی پریس کانفرنس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کئی پولیس افسران رخصت پر جا رہے ہیں یا اپنے عہدے چھوڑنا چاہتے ہیں کیونکہ یہ ان کی عزت کا سوال بن چکا ہے۔ انہوں نے اس سے اتفاق کیا کہ اس واقعے سے پولیس کی آزادانہ حیثیت کے طور پر کام کرنے کی صلاحیت متاثر ہوئی ہے اور ان کا مورال گرا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ یہ بے عزتی صوبائی حکومت کی جانب سے نہیں بلکہ ان کے الفاظ میں " کہیں اور " سے ہوئی ہے، اور پولیس افسران انہی سے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے رخصت پر جا رہےہیں۔
انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت سندھ پولیس کو سیاسی مداخلت سے پاک رکھنا چاہتی ہے اور ہم "کہیں اور سے" بھی یہ مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ غیر سیاسی اور تنگ نظری پر مبنی فیصلوں کی وجہ سے پولیس افسران کی تضحیک ہو رہی ہے۔
"کون تھے جنہوں نے آئی جی سندھ کے گھر کا گھیراؤ کیا، فوج تحقیقات کرائے"
بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ تمام پولیس افسران یہ سوال کر رہے ہیں کہ وہ کون تھے جنہوں نے آئی جی سندھ کے گھر کا رات دو بجے گھیراؤ کیا تھا؟ وہ کون لوگ تھے جو آئی جی سندھ کے گھر گئے اور انہیں صبح چار بجے کہاں لے کر گئے تھے؟
انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے تو اس معاملے کی تحقیقات کا اعلان کیا ہی ہے لیکن انہوں نے مطالبہ کیا کہ چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید بھی اپنے ادارے کی تحقیقات کرائیں کہ وہ کس طرح سے اس صوبے میں اپنا کام کر رہے ہیں۔ جس نے بھی انہیں یہ ایڈوائس دی، یہ غلط اقدام ہے، جس سے ان کے ادارے کی ادارتی دیانتداری کو نقصان پہنچا ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ ایسے نہیں ہو سکتا، کیا تُک بنتی ہے کہ آئی جی سندھ صبح چار بجے سیاسی نعروں پر اجلاس کر رہے ہیں، جب کہ صوبے میں قتل، دھماکے اور دیگر معاملات پر تو کوئی میٹنگ نہیں ہوئی۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ اس صوبے میں اتنے اہم اداروں کے افسران کا کام ملکی سالمیت سے متعلق تھا۔ ان کا کام صوبے میں امن کے قیام کو ممکن بنانا تھا۔ انہوں نے اس واقعے کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے سوال کیا کہ اگر پولیس کی عزت نہیں رہے گی تو وہ اپنا کام کیسے کرے گی؟
بلاول بھٹو نے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سویلین حکومت تو اس واقعے کی تحقیقات کرے گی ہی لیکن اس کے ساتھ یہ ادارے بھی جواب دہ ہیں اور وہ بھی اس واقعے کی مکمل تحقیقات کریں۔ ہم ایسی کوئی نظیر قائم نہیں کر سکتے۔ ہر ادارے اور افسر کی اپنی عزت ہے اور قانون کے دائرے میں کام کیا جائے گا۔ ایسے واقعے کو برداشت نہیں کیا جاسکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ سیاسی ایشوز ہو سکتے ہیں، لیکن سرخ لائنز کو عبور نہیں کرنے دیا جائے گا اور اس واقعے میں کئی حدوں کو عبور کیا گیا۔ اس واقعے نے اس بیانیے کو صحیح ثابت کیا ہے کہ حکومت کے اندر بھی ایک حکومت ہوتی ہے۔ یہ تاثر کسی بھی ادارے کے لئے بہتر نہیں۔
آرمی چیف کا کراچی واقعے کا نوٹس، تحقیقات کا حکم
ادھر بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس کے کچھ ہی دیر کے بعد پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کیا گیا۔ اعلامیے کے مطابق آرمی چیف نے کراچی میں کیپٹن صفدر کی گرفتاری کے لیے مبینہ طور پر فوجی افسران کے دباؤ کی خبروں پر نوٹس لیا ہے اور کور کمانڈر کراچی کو واقعے کے تمام پہلوں کا جائزہ لے کر حقائق کا تعین کرنے کی ہدایت کی ہے اور رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری سے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ٹیلی فون پر رابطہ کیا، جس میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور آرمی چیف نے کراچی واقعے پر تبادلہ خیال کیا۔
ترجمان کے مطابق چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کی جانب سے کراچی واقعے کا نوٹس لینے اور شفاف انکوائری کے حکم پر آرمی چیف کے احکامات کو سراہا ہے۔
"ایڈیشنل آئی جی پولیس کا خط، آئین سے آپ کی بغاوت کا ثبوت ہے"
ادھر مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے بھی ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ عمران یعقوب منہاس کا خط ٹوئٹر پر شیئر کرتے ہوئے کہا ہے کہ جو کچھ کراچی میں ہوا، وہ ان کے بیانیے”ریاست کے اوپر ریاست ہے” کا کھلا ثبوت ہے۔ انہوں نے کسی کو مخاطب کیے بغیر کہا کہ آپ نے منتخب صوبائی حکومت کے اختیارات کا مذاق اڑایا۔ چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کیا۔ سنیئر ترین پولیس افسران کو اغوا کر کے زبردستی آرڈر لیے، اور فوج کو بدنام کیا۔ پولیس افسر کا خط آئین سے آپ کی بغاوت کا ثبوت ہے۔
دوسری جانب میاں نواز شریف کی صاحبزادی اور کیپٹن صفدر کی اہلیہ مریم نواز نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ دھونس اور جبر کے سامنے جھک جانے سے انکار کرتے ہوئے پوری سندھ پولیس نے چھٹی کی درخواست دے دی۔ اداروں کو تباہ کرنے کا راگ الاپنے والوں کو اچھے سے پتہ چل گیا ہو گا گیا کہ ادارے کیسے تباہ ہوتے ہیں اور ان کو کون تباہ کرتا ہے۔ شاباش سندھ پولیس۔ ہمیں آپ پر فخر ہے۔
واقعہ کا پس منظرکیا ہے؟
سندھ پولیس نے کراچی میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے جلسے کے بعد پیر کی صبح کراچی کے نجی ہوٹل پر چھاپہ مارا تھا۔ اور ہوٹل کے کمرے کا دروازہ توڑ کر مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما کیپٹن (ر) صفدر کو گرفتار کر لیا تھا جہاں وہ اپنی اہلیہ مریم نواز کے ہمراہ مقیم تھے۔
کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے مزار کے تقدس کی مبینہ پامالی اور وہاں سیاسی نعروں پر ان کے خلاف مقدمے کا اندراج کیا تھا۔
گرفتاری کے بعد پیر کی دوپہر ہی کیپٹن (ر) صفدر کو عدالت میں پیش کیا گیا جہاں کیس کی سماعت کے بعد اُنہیں ذاتی مچلکوں پر ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا گیا۔
بعد ازاں پاکستان ڈیموکریٹک الائنس (پی ڈی ایم) کے قائدین اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر عمر نے الزام عائد کیا تھا کہ وزیر اعلیٰ سندھ نے انہیں بتایا کہ کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری سے انکار پر آئی جی سندھ کو اغوا کر کے رینجرز کے سیکٹر کمانڈر کے دفتر میں زبردستی گرفتاری کے احکامات پر دستخط کرائے گئے تھے۔
مرکزی حکومت کے ترجمانوں اور بعض حکومتی وزراء نے اس واقعے میں پیپلز پارٹی کے ملوث ہونے کے الزامات عائد کئے تھے، تاہم فوج کی جانب سے اس واقعے میں کسی کردار کی تردید یا تصدیق نہیں کی گئی تھی۔