پاکستان میں سرگرم غیر سرکاری بین الاقوامی فلاحی اداروں کی نمائندہ تنظیم پاکستان ہیومینٹیرین فورم ( پی ایچ فورم) 'نے حکومت پاکستا ن سے مطالبہ کیا ہے کہ ملک میں غیر معمولی سیلاب کی وجہ سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال میں سیلاب متاثرین کو فوری امداد فراہم کرنے کی خواہاں بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں سے متعلق قواعدوضوابط کو نرم کرتے ہوئے انھیں این او سی کی شرط سے استثنیٰ دیا جائے تا کہ وہ پاکستان آکر سیلاب زدگان کے لیے فوری طور امدادی سرگرمیاں شروع کر سکیں۔
پی ایچ فورم کی طرف سے یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان میں حالیہ تباہ کن سیلاب کی وجہ سے تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد افراد بری طرح متاثر ہوئے ہیں جبکہ لگ بھگ 60 لاکھ لوگوں کو فوری امداد کی ضرورت ہے جس کے لیے اقوام متحدہ نے حکومت پاکستان کے ساتھ مل کر 16 کروڑڈالر کی فوری ہنگامی امداد کی اپیل کی ہے۔
لیکن مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں بین الاقوامی امدادی تنظمیوں کے موثر نیٹ ورک کی غیر موجودگی کی وجہ سے شاید کئی بین الاقوامی امداد ی ادارے پاکستان کو براہ راست امداد فراہم کرنے میں جوش و خروش کا مظاہر ہ نہ کریں جو عام طور پر کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے مختلف علاقوں کو ملک کی تاریخ کے شدیدترین سیلاب اور غیر معمولی بارشوں کا سامنا ہے جس کے پاکستان کے چاروں صوبوں اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے مجموعی طور پر 112 اضلاع میں بنیادی ڈھانچے کو شدید نقصان پہنچا اور ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ پاکستانی حکام کہنا ہے کہ ایک ابتدائی انداز کے مطابق پاکستان کو سیلا ب کی وجہ سے ہونے والے نقصان کے ازلے لیے لگ بھگ 10 ارب ڈالر کی ضررورت ہو گی ۔
اقوام متحدہ کی طرف سے منگل کو 16 کروڑ ڈالر کی جاری ہونے والی فوری ہنگامی امدادی اپیل کو اگرچہ خوش آئند قرار دیا جارہا ہے لیکن پی ایچ فور م کے عہدیدار فرحان احمد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں یہ رقم کافی نہیں ہوگی اور ممکنہ طورپر مستقبل قریب میں عالمی امداد کے لیےمزید ایسی ایک دو اپیلوں کی ضرورت ہوگی۔
پاکستان میں سردیوں کا موسم قریب ہے اور اس وقت کئی لوگ سیلاب سے متاثرہو علاقوں میں پانی کے پاس کھلے آسمان کے تلے رہنے پر مجبور ہو گئے ہیں جس کے لیے نہ صرف ان افراد کی بحالی کی لیے مربوط کوششو ں کی ضرورت ہے بلکہ اس کے لیے بین الاقوامی امداد ی داروں کی بھی ضرورت ہوگی۔
فرحان احمد خان کہتے ہیں کہ پاکستان میں اس وقت سرگرم 38 آئی این جی اوز کی طرف سے سیلاب سے متاثر افراد کو 75 لاکھ ڈالر کی امداد فراہم کی جا چکی ہیں اور ان کےبقول آٹھ سے دس آئی این جی اوز پاکستان آ کر سیلاب متاثرین کے لیے امداد ی سرگرمیاں شروع کرنا چاہتی ہیں جو پاکستان میں رجسٹرڈ نہیں ہیں۔
فرحان احمد کہتے ہیں کہ ان تنظیموں کو پاکستان میں فوری طور کام شروع کرنے کے لیے ایک جلد از جلد ایک میکنزم وضع کرنا ہوگا کیونکہ آئی این جی اوز کے لیے حکومت پاکستان کی طے شدہ پالیسی کے تحت حکومت پاکستان سے اجازت حاصل کرنے کے کئی ہفتے درکار ہوں گے۔
پی ایچ فورم کے پاکستان میں رابطہ کار سید شاہد کاظمی کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 کی عالمی وبا کے وقت حکومت پاکستان نے بعض آئی این جی اوز کو این او سی کی شرط سے چھ ماہ کا استثنیٰ دیا تھا ۔ انھوں نے تجویز دی کہ اگر موجودہ ہنگامی سیلاب صورتحال کے پیش نظر اگر آئی این جو اوز کے لیے این او سی کے شرط کو عارضی استثیٰ دے دیا جائے تو بین الااقوامی رفاحی تنظیمیں فوری طور پاکستان آکر امدادی کام شروع کر سکتی ہیں۔
آئی این جی اوز سے متعلق پالیسی کیوں وضع کی گئی
یادر ہے کہ حکومت پاکستان نے عالمی غیر سرکاری تنظیموں کے لیے ملک میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے اس وقت نئے قواعد و ضوابط وضح کرنے کا اعندیہ دیا تھا جب یہ انکشاف ہوا تھا کہ مئی 2011 میں میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں تلاش میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے اہلکاروں نے مبینہ طور مدد کی تھی۔ اس واقعہ کے بعد حکومت پاکستان نے بلوچستان اور صوبہ خبیر پختونخوا کے کئی علاقوں میں بین الاقوامی امداد ی تنظمیوں کی رسائی کو محدود کر دیاتھا۔
بعدازاں حکومت پاکستان نے اکتوبر 2015 میں آئی این جی او ز کے لیے ایک پالیسی وضع کی تھی جس کے تحت ان تنظیموں کو پاکستان میں کام کرنے سے پہلے حکومت پاکستان سے باقاعدہ اجازت کو لازمی قراردے گیا تھا۔ جس کے لیے آن لائن طریقے سے باقاعدہ درخواست دینی ضروری ہے جس کی چھان بین کا عمل 60 روز کے اندر کیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان تنظیموں کو حکومت پاکستان کے ساتھ مفاہمت کی یاداشت پر دستخط کرنے ہوں گے جس میں انھیں اپنے امدادی کام کےدائرہ کار کو بھی واضح کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاوہ اس پالیسی کے تحت ان تنظیوں کے فنڈز کے ذرائع کے بارے میں بھی معلومات فراہم کرنے کا پابند کیا گیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
اس پالیسی کے مطابق حکومت پاکستان کی اجازت کے بغیر بین الاقوامی این جی اوز، مقامی این جی اوز کو مدد فرہم نہیں کر سکیں گی اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی بنا پر ان کی رجسٹریشن منسوخ کی جاسکی ہے۔
حکومت پاکستان کے طرف سے بتایا گیا تھا کہ پاکستان بین الاقوامی شراکت داری پر یقین رکھتا ہے اور آئی این جی اوز کے بارے میں پالیسی کا مقصد ان امدادی تنظیموں کے کام میں شفافیت لانا ہے ۔
تاہم فرحان احمد کا کہنا ہے کہ کہ انھیں آئی این جو اوز سے متعلق اس پالیسی پر اعتراض نہیں ہے۔ ان کےبقول کوئی بھی نئی آئی این جی اگر پاکستان میں کام کرنا چاہتی ہے تو اسے مختلف اداروں سے اجاز ت حاصل کرنے میں کافی وقت درکار ہوتا ہے لیکن اس وقت ملک میں ہنگامی صورت حال درپیش ہے اس لیے حکومت کو ان بین الاقوامی امدادی تنطیموں کے لیے فوری میکنزم وضع کرنا ہوگا تاکہ یہ تنظمیں فوری پر پاکستان آکر سیلاب زدگان کی مدد کرنا چاہتی ہیں۔
اگرچہ حکومت پاکستان کا پی ایچ فورم کے مطالبہ پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن فرحان احمد کہتے ہیں کہ پاکستان کی وزارت داخلہ نے انھیں آگاہ کیا ہے کہ امدادی تنظیموں کو ہر قسم کی سہولت فراہم کی جائےگی تاکہ اپنا امداد ی کام خوش اسلوبی سے جاری رکھ سکیں۔
فرحان احمد کہتے ہیں کئی یورپی ، امریکی اور کئی یورپی ممالک کی امدادی تنظیموں پاکستان میں ہنگامی سیلاب صورتحال سے متاثر ہ افراد کے مدد کرنے کے سامنے آ سکتی ہیں اگر حکومت آئی این جی اوز سے متعلق اپنی طے شدہ پالیسی کو نرم کردے۔ ۔
یادر رہے کہ 2010 کے سیلاب میں میں عالمی سطح پر پاکستان کو مختلف ممالک اور تنظیموں کی طرف سے امداد ، گرانٹ اور نرم قرضوں میں ملنے والی رقم لگ بھگ تین ارب 20 کروڑ ڈالر تھی لیکن فرحان احمد کہتے ہیں اس وقت پاکستان کو ملک کی شدید ترین سیلاب کے پیش نظر زیادہ امداد کی ضرورت ہو گی۔