برطانیہ کے انتخابات، توجہ دہشت گردی پر مرکوز

لندن میں پولیس اہل کار حملے کے شواہد اکھٹے کررہے ہیں۔ 5 جون 2017

حکومت سیکیورٹی کی ناکامیوں کے بارے میں انکوائری کرنا چاہتی ہے ۔ اور حزب اختلاف کے راہنما دہشت گردی کا إلزام پولیس کے شعبے میں حکومت کی کٹوتیوں کو دیتے ہیں ۔

برطانیہ میں دہشت گرد حملوں کے ایک حالیہ سلسلے کے بعد اب وہاں جمعرات کے روز عام انتخاب کے موقع پر سیکیورٹی کے انتظامات کو اولیت حاصل ہے تاکہ ووٹر کسی خوف کے بغیر اپنی رائے کا اظہار کر سکیں۔

۔ تازہ ترین حملے کے سلسلے میں برطانوی وزیر أعظم نے کہا کہ اب بہت ہو چکی ۔ ان کا کہنا تھا کہ برطانیہ کو اپنے رویے میں نمایاں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ انٹرنیٹ کے ذریعے انتہا پسندی میں ملوث افراد کو پکڑا جائے گا۔

لیکن دوسرے جانب وزیر أعظم تھیریسا مے پر یہ نکتہ چینی کی جا رہی ہے انہوں نے پولیس کی نفری گھٹا دی ہے اور وہ سیکیورٹی کو اہمیت نہیں دے رہیں۔

لند ن خود کو خطرے کے مقابلے کے لیے تیار کر رہا ہے۔ کمزور اہداف کو مستحکم کیا جا رہا ہے ٹریفک لائنز اور پلوں پر فٹ پاتھوں کو رکاوٹیں لگا کر سڑک سے الگ کیا جا رہا ہے تاکہ پیدل چلنے والے موٹر گاڑیوں کے حملے کی صورت میں محفوظ رہ سکیں ۔ لیکن ان حفاظتی طریقوں سے ہٹ کر برطانیہ خود کو کس طرح محفوظ رکھ سکتا ہے ۔ یہ ہے وہ سوال جو ایک ایسے وقت میں سب کے سامنے ہے کہ جب ملک انتخابات کے لیے تیار ہے ۔

برطانوی وزیر أعظم تھیریسا کا کہنا ہے کہ میں پولیس اور سیکیورٹی سروس کو مزید اختیارات دینے، دہشت گردی سے منسلک حملوں پر زیادہ کڑی سزاؤں، انٹر نیٹ کے مسائل سے نمٹنے اور اس چیز کو یقینی بنانے پر توجہ دوں گی تاکہ دہشت گردوں کے لیے انٹرنیٹ محفوظ جگہ نہ بن سکے۔

حکومت یو ٹیوب جیسی ویب سائٹس پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ اپنی سائٹ پر موجود مواد کا مزید تفصيل سے جائزہ لے ۔ کمیونٹی کے سر گرم کارکنوں نے اس اقدام کا خیر مقدم کیا ہے ۔

لندن مسلم کمیونٹی کے حامدی عبد اللہ محمود کہتے ہیں کہ والدین کی حیثیت سے ہم یہ نہیں جانتے کہ ہمارے بچے کیا کر رہے ہیں چاہے وہ ہمارے ساتھ گھر پر ہی کیوں نہ موجود ہوں۔ اور ہم حکومت سے چاہیں گے کہ وہ ہماری مدد کرے ۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ انتہا پسندی کے تانے بانے خوداسلام کے اندرموجود نظریات سے منسلک ہیں اور ان سے نمٹا جانا چاہیے ۔

ہنری جیکسن سوسائٹی کی جولیا روش چنکوکہتی ہیں کہ ہمارا خیال ہے کہ اس مخصوص معاملے پر بحث کا فقدان ہے۔ خصوصي طور پر بائیں بازو کے بہت سے گروپس سیاسی وجوہات کی بنا پر اس مسئلے پر کھل کر بات کرنے سے گریز کرتے ہیں ۔

لندن برج کے تمام تینوں حملہ آوروں کا تعلق مشرقی لندن کے بارکنگ اورڈاگلنہام ڈسٹرکٹ سے ہے ۔ وہاں کے مسلم راہنما اس حملے کا مذہبی عقیدے سے تعلق کو مسترد کرتے ہیں ۔

ڈاگنہام کی مرکزی مسجد کے ٹرسٹی خواجہ اشفاق علی کہتے ہیں کہ ہم امن کی تشہیر اور تبليغ کرتے ہیں ۔ اس لئے ہم کمیونٹی میں لوگوں سے امن اور برداشت کی توقع کرتے ہیں ۔ہمارے پاس احتیاطی اقدام کا ایک سسٹم موجود ہے جس پر ہم کام کررہے ہیں ۔ ہماری کمیونٹی میں جو کچھ ہو رہا ہوتا ہے، ہم اس پر نظر رکھتے ہیں۔

حکومت کی جانب سے کمیونٹیز کے لیے انتہا پسند نظریات کا اظہار کرنے والے افراد کے بارے میں رپورٹنگ کو آسان تر بنانے کی حکمت عملی کار گر ہو رہی ہے۔

لندن برج کے ایک حملہ آور خرم شہزاد بٹ کے بارے میں دو بار حکام کو شکایت درج کرائی گئی تھی ۔ اس کا ذکر جہاد کے بارے میں ایک دستاویزی فلم تک میں کیا گیا تھا اور وہ نفرت کے پر چار پر جیل بھیجے جانے والے ایک شخص انجم چوہدری کا ایک پیرو کار بھی تھا۔

حکومت سیکیورٹی کی ناکامیوں کے بارے میں انکوائری کرنا چاہتی ہے ۔ اور حزب اختلاف کے راہنما دہشت گردی کا إلزام پولیس کے شعبے میں حکومت کی کٹوتیوں کو دیتے ہیں ۔

لبرل ڈیموکریٹس کے لیڈر ٹم فارن کہتے ہیں کہ جو چیز واضح ہے وہ ہے پولیس کی نفری کی تعداد، اس جانب سرمایہ کاری ہر سال کم ہوئی ہے ۔ اس کی کچھ ذمہ داری تھیریسا مے پر عائد ہوتی ہے۔

دہشت گرد حملوں نے جمعرات کے انتخاب کو ایک اضافی ہنگامی جہت دے دی ہے اور فوری توجہ مزید خونریزی کو روکنے پر مرکوز ہو گئی ہے ۔