بلوچستان میں گزشتہ9 ماہ میں 4 خودکش حملوں میں 230 ہلاکتیں

فائل فوتو

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت اور وفاقی ادارے داعش اور اس کی حمایت کرنے والی تنظیموں کے نیٹ ورک کا پتا چلانے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔

ستارکاکڑ

پاکستان کے جنوب مغر بی بلوچستان میں گزشتہ دو دنوں کے دوران ہونے والے خون ریز واقعات نے صوبائی حکومت ،اعلیٰ سول اور عسکر ی حکام کو بھی پر یشان کر دیا ہے اور صوبے میں امن وامان کی بہتری کےلئے فوری اقدامات پر کرنے پر غور اور اقدامات اُٹھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔

ہفتے کو تعطیل کے باوجود سدرن کمانڈ ہیڈکوارٹر کوئٹہ میں صوبے کی سیکیورٹی کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے سول اور عسکر ی قیادت کا ایک اعلیٰ سطحی مشاورتی اجلاس منعقد ہوا۔

فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے ایک بیان کے مطابق اجلاس میں کمانڈر سدرن کمانڈ لیفٹیننٹ جنرل عامر ریاض ،صوبائی وزیر داخلہ میر سرفراز بگٹی، چیف سیکرٹری، ایڈیشنل آئی جی پولیس سمیت دیگر سینئر فوجی اور سول حکام نے شرکت کی۔

اجلاس کے شرکا ءنے صوبے میں سیکیورٹی کی صورتحال اور درپیش چیلنجز کا تفصیلی جائزہ لیا اور اس بات کا اعادہ کیا کہ صوبے میں مربوط رسپانس کے ذریعے پائیدار امن قائم کیا جائیگا۔ اجلاس میں مستونگ اور گوادر کے شہداءکے ایصال ثواب اور درجات کی بلندی کے لیے فاتحہ خوانی کی گئی۔

آئی ایس پی آر کے بیان میں اجلاس کی مزید تفصیلات میڈیا کو نہیں بتائی گئیں۔

قدرتی وسائل سے مالا مال اس جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں گزشتہ دو دنوں کے جان لیوا حملوں میں 38 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ جمعے کو سینٹ کے ڈپٹی چیئر مین مولانا عبدالغفور حیدری پر اُس وقت خودکش حملہ کیا گیا جب مولانا حیدری لڑکیوں کی ایک مدرسے میں شال پوشی وبخار ی شریف کی تقریب میں شر کت کے بعد واپس جارہے تھے جبکہ ہفتے کے روز گوادر کے علاقے پُشوکان میں سڑک کی تعمیر کا کام کرنے والے محنت کشوں پر فائرنگ میں د س افراد ہلاک ہوگئے ۔

پاکستان کے اس جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں گزشتہ نو ماہ کے مختصر عر صے میں چارخودکش حملے ہوچکے ہیں ان میں 230 افراد ہلاک اور 240 زخمی ہوچکے ہیں ان تمام حملوں کی ذمہ داری مشرقی وسطی میں سر گرم عمل داعش قبول کر چکی ہے۔

وفاقی و زیر داخلہ چوہدری نثار اور صوبائی وزیر داخلہ میر سر فراز بگٹی سمیت تمام اعلی سول وعسکری حکام بلوچستان میں داعش کے نیٹ ورک کی موجودگی کی نفی کر تے رہتے ہیں تاہم صوبے میں پے درپے خون ریزخودکش حملوں سے اب شہری پر یشان نظر آتے ہیں ۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت اور وفاقی ادارے داعش اور اس کی حمایت کرنے والی تنظیموں کے نیٹ ورک کا پتا چلانے میں اب تک کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔ گزشتہ8 اگست کو وکلاءپر ہونے والے حملے میں ملوث پانچ دہشت گردوں کو ضلع پشین میں ایک کاروائی کے دوران ہلاک کر دیا گیا لیکن ان کے نیٹ ورک کے بارے میں لوگوں کو کچھ نہیں بتایا گیا۔ اسی طرح کو ئٹہ کے قر یب پولیس کے تر بیتی مر کز اور خضدار میں شاہ نورانی کے مزار پر ہونے والے حملوں کی تحقیقات سے بھی کسی کو آگاہ نہیں کیا گیا۔ تجزیہ نکار اس توقع کا اظہا ر کر رہے ہیں کہ سیکیورٹی ادارے مولانا عبدالغفور حیدری پر ہونے والے خودکش حملہ آوروں کے نیٹ ورک کا پتہ چلانے کی ہر ممکن کو شش کرینگے ۔