امریکی محکمہ دفاع کے ایک اعلیٰ عہدےدار نےا سرائیل کے لیے مکمل حمایت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیلی شہریوں پر حماس کا حملہ داعش کی سطح کی وحشیانہ کارروائی سے کم نہیں ہے ۔
امریکی محکمہ دفاع کے ایک سینئیر عہدے دار کا یہ بیان اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو کے تبصروں کی باز گشت ہے۔ انہوں نے بھی حماس کو دہشت گرد گروپ داعش سے منسلک کیا تھا جو سر قلم کرنے اور موت کی دوسری سزاؤں کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کرنے کے لیے بدنام ہے۔
"میرے خیال میں اس کو ایسے تناؤ یا تنازعات کے طور پر دیکھنے کی جبلت ہے جو ہم نے فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان دیکھے ہیں،" اہلکار نے پینٹاگون کے طے کردہ اصولوں کے تحت نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رپورٹرز کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا۔" تاہم یہ مختلف ہے."
عہدے دار نےکہا کہ حماس کے عسکریت پسندوں کا پورے اسرائیل میں جانا، بچوں کو ان کے والدین کے سامنے ہلاک کرنا، موسیقی کی تقریبات میں اندھا دھند قتل عام کرنا، خاندانوں کے پورے مکانات کو اس وقت نذر آتش کر دینا جب وہ بنکرز میں پناہ لیے ہوئے ہوں ۔۔ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔۔
عہدےد ار نے مزیدکہا کہ ہم اسرائیل کی، اور اس کی جانب سے اپنے شہریوں اور اپنے علاقے کو حماس سے محفوظ بنانے کو یقینی بنانے کے رد عمل کی حمایت کرتے ہیں ۔اور یہ تسلیم کرتے ہیں کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کی بحالی کے کسی رد عمل کی ضرورت تھی۔
امریکہ پہلے ہی یو ایس ایس جیرالڈآر فورڈ اسٹرائیک گروپ کو مشرقی بحیرہ روم کی طرف جانے کا حکم دےچکا ہے جس میں امریکی بحریہ کے جدید ترین طیارہ بردار بحری جہاز ، گائیڈڈ میزائیل کروزر اور پانچ گائیڈڈ میزائل ڈیسٹرایرز شا مل ہیں۔
عہدے دار نے کہا کہ بحری جہاز بہت جلد روانہ ہونے والے ہیں اور وہ بحری اور فضائی کارروائیاں شروع کر دیں گے تاکہ اتحادیوں کو از سر نو یقین دہانی کرائے جائے اور ایران جیسے عناصر اور اس کی مختلف پراکسیز کو روک سکیں جن میں لبنان کی حزب اللہ شامل ہے جو تنازعے سے فائدہ اٹھانے یا اسے بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔
واشنگٹن کےپاس ایران کےحماس منصوبے سے براہ راست منسلک ہونے کےشواہد نہیں ہیں
ایران اور اس کے حمایت یافتہ گروہوں کی جانب سے ممکنہ خطرے پر تشویش کے باوجود دفاع سے متعلق سینیئر عہدے دار نے دوسرے اعلی امریکی عہدے داروں کے ان بیانات کو دہرایا کہ واشنگٹن کےپاس اس بارے میں کوئی شواہد نہیں ہیں کہ ایران حماس کے منصوبے سے براہ راست منسلک تھا۔؎
تاہم انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امریکہ تہران کے خطرے کو اہمیت نہیں دے رہا ۔
SEE ALSO: کیا ایران نے اسرائیل پر حملے میں حماس کی مدد کی؟امریکہ کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے پیر کی رات نامہ نگاروں سے ایک کال کے دوران کہا کہ، ایران کئی برسوں سے حماس کی ہتھیاروں ، تربیت اوریقینی طورپر زبانی لیکن اس سے زیادہ ٹھوس طریقوں سے مدد کررہاہے
کربی نے دوسرے امریکی عہدے داروں کی طرح کہا کہ اختتام ہفتہ حماس نےجس قسم کے پیچیدہ حملے کیے تھے ان میں ایران کی شرکت ،وسائل کی فراہمی یا منصوبہ بندی میں ملوث ہونے کے کوئی ٹھوس شواہد نہیں دیکھے گئے ۔
کربی نے مزید کہا کہ امریکہ اور اسرائیل دستیاب انٹیلی جنس کا جائزہ جاری رکھیں گے اور یہ کہ اس وقت امریکہ اسرائیل کی مدد اور اس بات کو یقینی بنانے پر توجہ مرکوز رکھے گا کہ تنازعہ شدت اختیار نہ کرے ۔
پیر کے روز متعدد امریکی عہدے دارو ں نے اسرائیل کی لبنان کے ساتھ شمالی سرحد کے ساتھ حزب اللہ کے تین عسکریت پسندوں کی سر حدپار ہلاکت کے بعد حزب اللہ پر تنقیدکی ہے ۔
کربی نے ایران کے حمایت یافتہ گروپ پر راکٹوں کے متعدد حملوں کا الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ حزب اللہ کی جانب سے اس بارے میں متضاد پیغامات ملے ہیں کہ وہ کس حد تک اس میں ملوث ہو نے یا منصوبہ بنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔
عہدے دار نے کہا کہ ہمیں حزب اللہ کی جانب سےکسی غلط فیصلے، اور اس تنازعے میں کوئی دوسرا محاذ کھولنے کا انتخاب کرنے کے بارے میں گہری تشویش ہے ۔
اس بارے میں کچھ تشویش پائی جاتی ہے کہ ، ایران اور اس کی پراکسیز کی جانب سے خطرہ کہیں زیادہ ہو سکتا ہے جتنا اس وقت اسرائیل اور امریکہ نےخدشہ ظاہر کیا ہے اور یہ کہ امریکہ کو خاص طور پر ایسے کسی خطرے کا از سر نو اندازہ لگانے کی ضرورت ہے ۔
SEE ALSO: ’حماس کا مقصد سعودی عرب اور اسرائیل تعلقات کے قیام کو روکنا ہو سکتا ہے‘تاہم امریکی عہدے داروں نے کہا ہے کہ امریکہ اسرائیل یا غزہ میں اپنے فوجی رکھنے کا کوئی منصوبہ نہیں رکھتا اور یہ کہ اس کی توجہ صرف اس معاملے پر مرکوز ہو گی کہ اسرائیل کو حماس کے خلاف لڑنے کے لیے جو کچھ درکار ہے وہ اس تک پہنچایا جائے۔
امریکی عہدے داروں کو معلوم ہے کہ اسرائیل کو دی جانے والی اس امداد پر کچھ اعتراض ہوں گے خاص طور پر اس تناظر میں کہ بیشتر لڑائی ایک گنجان آباد علاقے غزہ میں ہوگی اور یہ کہ حماس کے مشتبہ ٹھکانوں پر اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں پہلے ہی عام شہریوں کی ہلاکتوں کی خبریں ملی ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
عہدے داروں نے کہا ہے کہ کوئی بھی غزہ میں بے گناہ شہریوں کو ہلاک یا زخمی نہیں دیکھنا چاہتا۔ انہوں نے مزیدکہا کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے اور وہ اکثر سویلینز کی ہلاکت کو کم سے کم کرنے کے اقدامات کرتا ہے ۔
دفاع سے متعلق سینئر عہدے دار نے کہا، ہم اپنے اسرائیلی پارٹنرز پر ہمیشہ زور دیتے ہیں جیسا کہ ہم کسی بھی پارٹنر پر دیتے ہیں کہ عام شہریوں کو ہلاک یا زخمی کرنےسے گریز کریں ۔ عہدے دارکا مزید کہنا تھا ، کہ یہ ہی وہ بات ہے جس پر حماس نے قطعی طور پر عمل نہیں کیا ۔