عمران خان کی گرفتاری کے لیے کئی ماہ سے بات ہورہی تھی اور جوڈیشل کمپلیکس میں شدید آنسوگیس اور لڑائی کے بعد اندازہ نہ تھا کہ عمران خان کو صرف پانچ منٹ کے اندر گرفتار کرلیا جائے گا۔ شاید ریاست اسی کو کہتے ہیں کہ جب وہ چاہے تو سب کچھ ممکن ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ گذشتہ چند سالوں سے ایک مصروف ترین عدالت ہے جہاں آئے روز سیاسی رہنماؤں کے کیسز لگتے رہتے ہیں اور جب بھی کسی سیاسی رہنما کی آمد ہوتی ہے تو ہائیکورٹ کے اطراف کے علاقے بند کردیے جاتے ہیں۔
منگل کا دن بھی ایسا ہی تھا،، اسلام آباد ہائیکورٹ کی طرف پہنچے تو حسب معمول تمام راستے بند تھے لہذا مختلف گلیوں سے ہوتے ہوئے ہائیکورٹ کی عقبی جانب موجود مارکیٹ میں سڑک کنارے گاڑی کھڑی کی اور پولیس سے بچتے بچاتے ہائیکورٹ کے دروازہ پر پہنچے تو معمول سے زیادہ اہلکار موجود تھے اور فضا میں ایک بڑا سا ڈرون اڑ رہا تھا،،، یہ خلاف معمول تھا کیونکہ عمران خان کی پیشی کے موقع پر میڈیا کا کوئی ڈرون اڑانے کی اجازت نہیں ہوتی،اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ لازمی پولیس یا کسی اور کا ہی ڈرون تھا جسے اڑانے کی اجازت تھی۔
Your browser doesn’t support HTML5
ہائیکورٹ کے اندر داخل ہوئے تو پولیس اہلکار معمول کے مطابق ڈیوٹی پر تھے، میں نے ایک دوست پولیس افسر سے عمران خان کی گرفتاری کے خدشے کا کہا تو اس نے صاف انکار کیا اور کہا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے، کچھ ہی دیر میں عمران خان جوڈیشل کمپلیکس سے ہوتے ہوئے ہائیکورٹ پہنچے تو گیٹ کے باہر ہی ان کی گاڑی کو روک دیا گیا، چند لمحوں بعد عمران خان وہیل چئیر پر بیٹھ کر ہائیکورٹ کے احاطہ میں داخل ہوئے اور ان کے گارڈز نے ان کے اردگرد اسی طرح لوہے کی چادریں تانی ہوئی تھیں اور کسی کو قریب آنے کی اجازت نہ تھی، 20 سے 30 میٹر کے فاصلہ پر اسلام آباد ہائیکورٹ کی مسجد ہے جہاں سے بائیں مڑ کر سامنے بائیو میٹرک کروانے والا آفس ہے، یہ آفس فائبر شیٹس کے ساتھ بنا ہے اور باقاعدہ پختہ عمارت نہیں ہے۔
SEE ALSO: اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری قانونی قرار دے دیعمران خان وہیل چئیر پر جب بائیومیٹرک برانچ کے قریب پہنچے تو عقب سے رینجرز کی بھاری نفری آنے لگی، مکمل طور پر پروٹیکشن گئیر میں ملبوس رینجرز اہلکاروں کی تعداد کوئی دو سے ڈھائی سو کے قریب ہوگی جنہوں نے اس برانچ کے سامنے جگہ کو مکمل طور پر گھیرے میں لے لیا ، عمران خان اپنے گارڈز کے حصار میں تھے لیکن اسی دوران قریب جانے والے وکلا اور پولیس اہلکاروں کو رینجرز نے پیچھے دھکیلنا شروع کردیا،ایک عرصہ سے ایسے واقعات کی رپورٹنگ کرنے کی وجہ سے اندازہ ہوگیا تھا کہ اب آئندہ کیا ہونے والا ہے لہذا فیصلہ کیا کہ زیادہ قریب نہیں جانا البتہ موبائل فون ہاتھ میں لیکر فوٹیج بنانا شروع کردی۔
چند لمحوں بعد عمران خان کی وہیل چئیر آگے ہوئی اور عمران خان اس برانچ کے اندر چلے گئے، یہ ایک چھوٹا سا فائبر کا بنا کیبن ہے جس میں اندر ایک کاؤنٹر ہے اور باہر کھڑے ہوکر بائیومیٹرک تصدیق کروا کر اپنی درخواست کے ساتھ حاصل ہونے والی رسید لگائی جاتی ہے۔عمران خان کیبن کے اندر تھے کہ اچانک رینجرز والوں نے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کردیا اور دھکے دینے لگے، اس دوران اس کیبن کی شیشے کی کھڑکی کو ڈنڈے مار کر توڑ دیا گیا اور اسی دوران رینجرز اہلکاروں نے ہاتھ میں پکڑی سپرے گنز سے عمران خان کے گارڈز اور وکلا سمیت قریب موجود سب لوگوں کی آنکھوں کو اندھا کرنا شروع کردیا۔ یہ دیکھ کر میں مزید فاصلہ پر ہوا لیکن اسی دوران سپرے سے نکلا کیمیکل چہرے پر محسوس ہوا لیکن اتفاقاً چہرے پر لگےسن گلاسز کی وجہ سے آنکھیں محفوظ رہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
دروازہ نہ کھلنے پر کھڑکی سے ایک رینجرز اہلکار کیبن میں داخل ہوا اور اندر جاکر دروازہ کھول دیا، اس کے بعد رینجرز کی بھاری نفری اندر داخل ہوئی اور عمران خان کو بازوؤں سے پکڑ کر باہر نکالنا شروع کیا، اس دوران بعض وکلا اور عمران خان کے گارڈز نے مزاحمت کی تو رینجرز نے انہیں ڈنڈوں پر رکھ لیا اور ان کی پٹائی کی گئی، اس دوران بعض اہلکاروں کے سر کھل گئے، پاس کھڑے علی نواز اعوان سے پوچھا کہ عمران خان گرفتار ہوگئے تو انہوں نے سر پر ہاتھ رکھے رکھے کہا کہ ہاں خان کو گرفتار کرلیا ہے۔ چند لمحوں بعد رینجرز اہلکار عمران خان کو گھسیٹتے ہوئے ہائیکورٹ کی عقبی جانب گئے جہاں ایک کالے رنگ کا ویگوڈالا موجود تھا۔ اس ویگو ڈالے میں عمران خان کو ڈالا گیا اور اس پر کئی اہلکار سوار ہوگئے اور یہ گاڑی اگلے چند سیکنڈز میں ججز کے لیے مخصوص گیٹ سے باہر نکل گئی۔
عمران خان گرفتار ہوگئے اور ان کے وکلا کی ٹیم اور پولیس اہلکار دیکھتے ہی رہ گئے کہ یہ ہوا کیا ہے۔ اسی پولیس افسر دوست سے کہا کہ اب بتاؤ ۔۔۔وہ اپنے بچوں کی قسم کھا کر کہنے لگا کہ بھائی باقی پولیس والوں کا نہیں پتہ لیکن مجھے اس گرفتاری کا قطعاً علم نہ تھا،، مجھے لگ رہا ہے کہ وہ سچ کہہ رہا تھا کیونکہ جس انداز میں یہ آپریشن ہوا اور جس طرح اسلام آباد پولیس اہلکاروں ، وکلا، عمران خان کے گارڈز کو مار پڑی ،،کسی کو بھی علم نہ تھا کہ آج کیا ہونے والا ہے۔۔۔
عاصم علی رانا، اسلام آباد