طالبان کا صرف مرد طالب علموں کے لیے یونیورسٹیاں کھولنے کا اعلان

ایک طالبہ کابل یونیورسٹی کے باہر لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی کے خلاف تنہا احتجاج کر رہی ہے۔ 22 دسمبر 2022

طالبان حکام نےافغانستان کے دارالحکومت کابل اور کئی دوسرے شہروں میں سرکاری یونیورسٹیاں دوبارہ کھولنے کا اعلان کیا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہاں صرف مرد طالب علموں کو ہی جانے کی اجازت ہوگی۔

طالبان کی وزارت برائے اعلیٰ تعلیم کے ایک مختصر بیان میں کہا گیا ہے کہ’’سپریم کونسل برائے اعلیٰ تعلیم کے فیصلے کے مطابق، سرد صوبوں میں سرکاری اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مرد طلباء کی تعلیم کا باقاعدہ آغاز اس سال 6 مارچ سے ہوگا۔

افغانستان کے 34 میں سے تقریباً 24 صوبوں میں موسم سرما میں سکولوں اور یونیورسٹیوں میں سالانہ تعطیلات ہوتی ہیں۔

گزشتہ سال طالبان نے طالبات کے لیے اعلیٰ تعلیم پر یہ کہتے ہوئے پابندی لگا دی تھی کہ سابقہ حکومت کے دوران خواتین صنفی بنیاد پر عائد مذہبی پابندیوں کا مناسب طور پر خیال نہیں رکھتی تھیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

افغانستان: 'وہ زندگی کا درد ناک لمحہ تھا جب پتا چلا کہ اب یونیورسٹی میں داخلے کی اجازت نہیں'

اگست 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے، طالبان طالبات کی تعلیم پر پابندی کے بارے میں یہ کہتے رہے ہیں کہ یہ عارضی ہے اور اس کے متعلق جلد فیصلہ کر لیا جائے گا۔

انسانی حقوق کے گروپوں کے مطابق، افغانستان واحد ملک ہے جہاں خواتین اور لڑکیوں کو سرکاری طور پر تعلیم اور کام سے روک دیا گیا ہے۔

لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کی حمایت کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم لرن افغانستان کی ڈائریکٹر، پشتانہ درانی نے کہا ہے، ’’طالبان کے اندر اقتدار کی اندرونی کشمکش چل رہی ہے۔‘‘

SEE ALSO: طالبان رہنماؤں کی ایک دوسرے پر تنقید، اندرونی اختلافات سامنے آنے لگے

ان کا کہنا تھا کہ اس وقت طالبان اس مخمصے کا شکار ہیں کہ وہ اپنے امیر کو ہٹا نہیں سکتے اور نہ ہی اس کا مواخذہ کرسکتے ہیں جو ایک ایسا شخص ہے جو اسکولوں اور یوینورسٹیوں میں خواتین کے داخلے کےخلاف ہے۔

ایک ممتاز خاتون صحافی فرح ناز فروتن نے، جو طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد افغانستان چھور گئی تھیں،کہا ہے کہ لڑکیوں اور خواتین کے لیے تعلیم سے انکار طالبان رہنما کا افسوسناک طرز عمل ہے جس کے لاکھوں افغانوں کے لیے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔

(اکمل دعوی، وی او اے نیوز)