واشنگٹن ڈی سی۔ امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی میں کانگرس کی عمارت کے سامنے گذشتہ تین ماہ سے افغان پناہ گزین ، سابق امریکی فوجی اور ہیومنٹیرین کا ایک گروپ روزانہ بغیر کسی ناغے کے جمع ہوتا ہے ۔
شرکا کا مطالبہ ہے کہ کا نگرس عارضی سٹیٹس پر امریکہ آنے والے افغان پناہ گزینوں کے بہتر مستقبل کے لئے اور امریکہ میں مستقل سکونت کا اہل بنانے والے بل کی منظوری دے ، جسے " افغان ایڈجسٹمنٹ ایکٹ" کہا جاتا ہے ۔ جس پر ووٹنگ ابھی ہونی ہے۔
اس اجتماع کے منتظمین اسے "فائر واچ" کہتے ہیں ۔
"فائر واچ " فوجی اصلاح ہے ، جس کا مطلب مسلسل ڈیوٹی پر رہ کر نگرانی کرنا۔
صافی رؤف سابق امریکی فوجی ہیں اور ہیومن فرسٹ ادار ےکے بانی ہیں۔ وہ اس فائر واچ کے منتظمین میں سے ایک ہیں۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتےہوئے انہوں نے کہا کہ ہم یہاں اس لئے جمع ہوتے ہیں کہ کانگرس اس بل کو منظور کرنے کے لیے دباؤ ڈالے ، جو کئی ماہ پہلے متعارف کرایا گیا ہے ۔
’’افغان ایڈجسمنٹ ایکٹ منظور کرانا ایک ایسا چھوٹا سا قدم ہے جو قانون ساز ہمارے افغان اتحادیوں کے لئے اٹھا سکتے ہیں، یہ بل انسانی حقوق کے لئے ہے۔‘‘
15 ستمبر کو کیپٹل ہل سے شروع ہونے والا فائر واچ سخت سردی ، برف باری اور بارش کے باوجود ہفتے کے ساتوں دن اور چوبیس گھنٹے جاری ہے ۔ کبھی شرکا کی تعداد کم ہوتی ہے اور کبھی زیادہ ۔
صافی روف بل کی منظوری کے لیے پرامید ہیں۔
’’ گذشتہ تین ماہ سے بہت سی کوششیں اور کام کیا گیا ہے، ہم امید کر رہے ہیں کہ کانگریس اس میں پیش رفت کرے گی ، اس وقت رپبلکن اور ڈیموکریٹس کے دس سینیٹرز بل کو سپانسر کر رہے ہیں۔ہمیں دونوں جماعتوں کے بڑی تعداد میں قانون سازوں کی حمایت حاصل ہے‘‘۔
جمعرات کے روز اس گروپ نے ایک پریس کانفرنس منعقد کی ۔جس میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی افغان خواتین، سابق فوجی اور خواتین کے حقوق کی سرگرم کارکنوں نے خطاب کیا ۔
امریکہ آنے والے افغان پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ روس یوکرین جنگ کے بعد امریکہ میں پناہ گزینوں کے لئے یوکرینی ایکٹ متعارف کرایا گیا ۔ان کا کہنا ہے کہ افغانستان امریکہ کے لئے اہم رہا ہے کیونکہ وہاں امریکیوں نے بھی خدمات انجام دی ہیں۔ لیکن جب بات حکومت کی پالیسی کی سطح کی ہو اور اس میں کوئی شک نہیں کہ افغان پناہ گزینوں سے الگ برتاؤ کیا جا رہا ہے۔
فائر واچ میں شرکت کرنےوالی میری اکرمی گذشتہ سال افغانستان سے انخلاکے عمل کے دوران امریکہ آئیں تھی۔ وہ ’’ افغان وومن نیٹ ورک‘‘ کی سربراہ اور انسانی حقوق کی سرگرم کارکن رہ چکی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا :
’’ میں امریکہ خود نہیں آئی، بلکہ مجھے لایا گیا لیکن ابھی بھی میرے یا میرے جیسے دیگر افغان افراد کا کوئی سٹیٹس نہیں، تمام امریکی قانون سازوں سے میری توقع ہے کہ وہ اس بل کو جلد از جلد پاس کریں گے۔‘‘
گروپ میں شامل افغان امریکی نصار حوائی کہتے ہیں کہ یہ بل بہت اہمیت رکھتا ہے اس بل کے منظور ہونے کا فائدہ صرف ان لوگوں کو نہیں جو افغانستان سے انخلا کرکے امریکہ آئے ہیں بلکہ پیچھے رہ جانے والے افغان خاندان بھی اس سے مستفید ہو سکیں گے۔
نصار کہتے ہیں کہ "یہ بل افغانستان میں لوگوں کے لئے معاشی فائدے کا باعث بنے گا اور انخلاکے لئے راستہ ہموار کرے گا "۔
اس بل پر تنقید کرنے والے کچھ قانون سازوں نے سیکیورٹی سے متعلق خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ان میں سینیٹر چک گریسلی بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے پناہ گزینوں کی مکمل جانچ پڑتال کا عمل ختم ہو جائے گا۔
"افغان ایڈجسمنٹ ایکٹ " کی حمایت میں بولنے والے رپبلکن پارٹی کے کانگرس رکن پیٹر مائر بھی جمعرات کے روز کانگرس کے سیشن کے دوران خاص طور پر اس فائر واچ میں شرکت کے لئے آئے۔
وائس آف امریکہ کے ایک سوال کے جواب میں پیٹر مائر نے کہا کہ کانگرس کے پاس اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ایک اور موقع ہےکہ جن لوگوں کو افغانستان سے نکال کر یہاں امریکہ لایا گیا ہے ، وہ ابھی یہاں موجود ہیں، سیکیورٹی کے کوئی خدشات یا خطرات نہیں ہیں۔ افغان پناہ گزینوں کے سٹیٹس میں تبدیلی صرف اس قسم کی قانون سازی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس بل سے ہمارے کمزور افغان اتحادیوں کے لیے استحکام کا راستہ کھلے گا۔
فائر واچ کی دیگر شرکا میں شامل حسنہ جلیل افغانستان میں ڈپٹی منسٹر فا ر انٹیرئر افریز اور وومن افئیرز رہ چکی ہیں ،وہ کابل پر طالبان کے قبضے سے دو ماہ پہلے امریکہ ایک فیلو شپ پر آئیں تھی اور پھر واپس نہیں گئیں۔
وہ کہتی ہیں ’’امریکہ ہزاروں افغان شہریوں کا انخلا کرکے یہاں لایا ہے۔ جن میں زیادہ تر بچے اور نوعمر افراد شامل ہیں ،جن کے کچھ خواب ہیں ، امیدیں ہیں، سال سے زیادہ عرصہ ہونے کو آیا ہے ، وہ اب یہ حق رکھتے ہیں کہ یہاں نئی زندگی شروع کر سکیں ‘‘۔
مصطفی بابک امریکہ میں افغان امریکن فاؤنڈیشن کے ساتھ کام کرتے ہیں ، وہ اس فائر واچ میں امریکی ریاست نبراسکاسے شرکت کے لئے آئے تھے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے مصطفی کا کہنا تھا کہ " اس بل پر بہت کام کیا گیا ہے، ہمارے افغان امریکی اور سابق فوجی اس کے لئے سرگرم ہیں کہ یہ جلد منظور ہو جائے ، اس لئے مجھے امید ہے کہ یہ منظور ہو جائے گا۔
سرینا فیضی قندھار، افغانستان میں صوبائی کونسل کی رکن تھیں اور امریکی اسپیشل فورسز کے کام کر چکی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ "ہم دو تین ماہ سے یہاں اس فائر واچ میں آ رہے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ کانگرس پر "افغان ایڈجسمنٹ ایکٹ" پاس کرنے کے لئے دباؤ جاری رکھیں۔”
فرہاد صافی پانچ سال پہلے اسپیشل امیگرینٹ ویزا پر امریکہ آئےتھے ۔وہ افغان پناہ گزینوں کی آباد کاری کے لئے کام کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے فرہاد کا کہنا تھا کہ "یہ فائر واچ اہم ہے ، افغانستان سے آنے والے غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں کہ آگے کیا ہوگا وہ امریکہ میں مزید رہ سکیں گے یا نہیں اور اسی لئے ہم اس بل کے پاس ہونے پر زور دینے کے یہاں جمع ہیں "۔
شرکا کا کہنا ہے کہ آخری ووٹ کی گنتی تک جب تک یہ بل منظور نہیں ہوجاتا اور یہ جلد قانون نہیں بن جاتا " فائر واچ" جاری رکھیں گے ۔
افغان ایڈجسمنٹ ایکٹ کیوں متعارف کرایا گیا
اقوام متحدہ کے مطابق، دو ہزار اکیس میں طالبان کی آمد کے بعد کم از کم 2.7 ملین افراد افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ امریکی محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی کی رپورٹ کے مطابق ویتنام جنگ کے دور کے بعد اپنی نوعیت کے سب سے بڑے آپریشن کے تحت گزشتہ سال سے اب تک افغانستان سے تقریباً 88ہزار سے زیادہ افغان پناہ گزینوں کو امریکہ لایا گیا ہے۔جو اس وقت عارضی امیگریشن کی حیثیت پر امریکہ میں رہ رہے ہیں۔یہ عارضی حیثیت انہیں دو سال تک امریکہ میں رہنے اور کام کرنے کی اجازت دیتی ہے ۔
لیکن دو سال کی مدت کے بعد، موجودہ نظام میں انخلاء کرکے اآے والوں کے لیے مواقع محدود ہیں۔ بہت سے لوگوں کے لیے، سیاسی کی درخواست جمع کرانا واحد آپشن ہے ، جس میں طویل وقت درکار ہ ہوتاے۔
اس مسئلے کے حل کے لئے ،کچھ ماہ پہلے امریکی کانگریس کے دونوں ایوانوں میں ڈیموکریٹ اور رپبلکن قانون سازوں ایک گروپ نے "افغان ایڈجسٹمنٹ ایکٹ " نامی ایک بل متعارف کرایا ہے ۔
یہ قانون سازی سب سے پہلے سینیٹر کلوبشر (ڈیموکریٹ)، گراہم (ریپبلکن)، کونز (ڈیموکریٹ)، بلنٹ (ریپبلکن) بلیومینتھل (ڈیموکریٹ) اور سینیٹر مرکوسکی (ری پبلکن) نے اگست میں متعارف کرائی تھی۔ ایوان نمائندگان کے ڈیموکریٹ رکن ارل بلیومینور اور ری پبلکن رکن پیٹر میئیجر نے نچلے ایوان میں اسی طرح کی قانون سازی کی قیادت کی تھی۔
دو طرفہ قانون سازوں کی جانب سے پیش کئے گئے اس بل میں 144 شریک سپانسرز ایوان میں اور سینیٹ میں پانچ ہیں۔ سابق فوجیوں، پناہ گزینوں کی آبادکاری کے اداروں اور قومی سلامتی کے ماہرین نے قانون سازی کو منظور کرنے پر زور دیا ہے۔
اگر یہ بل منظور ہو جاتا ہے، تو اس کے تحت عارضی حیثیت کے حامل افغان پناہ گزینوں کو قانونی طور پر مستقل رہائش کے لیے درخواست دینے اور امریکی شہریت حاصل کرنے کے لیے راستہ ہموار ہو جائے گا۔ جس سے وہ ملک بدری سے بچ سکیں گے اور انہیں اپنی ملازمت اور صحت کی دیکھ بھال کے فوائد کو برقرار رکھنے میں مدد ملے گی ، اور دور بیٹھے خاندان اکھٹے ہو سکیں گے۔
ڈیموکریٹ سینیٹر جین شاہین , سینیٹ کی کمیٹی برائے خارجہ تعلقات کی سینئر رکن ہیں، انہوں نے بدھ کے روز اعلان کیا ہے کہ وہ ’افغان ایڈجسٹمنٹ ایکٹ‘ میں ترمیم کے دو جماعتی بل کو سپانسر کریں گی ۔
SEE ALSO: ’افغان ایڈجسٹمنٹ ایکٹ‘ میں ترمیم کے دو جماعتی بل کو سپانسر کروں گی، ڈیموکریٹ سینیٹر جین شاہین
سینیٹر شاہین کا کہنا تھا کہ ’’امریکہ نے اپنے افغان اتحادیوں کے ساتھ وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ ان کو محفوظ رکھے گا۔ ان میں سے ہزاروں افراد اب امریکہ پہنچ گئے ہیں۔ وہ لوگ جو افغانستان سے انخلا اور دوسری جگہ آباد کاری کے دوران امریکہ پہنچے وہ اس موقع کے مستحق ہیں کہ وہ یہاں مستقل سکونت کے لیے درخواست دے سکیں۔ اسی وجہ سے افغان ایڈجسٹمنٹ ایکٹ بہت اہم ہے"۔
اس بل کی جن تنظیموں نے حمایت کی ہے ان میں عراق اینڈ افغانستان ویٹرنز آف امریکہ، ویٹرنز آف امریکن آئیڈیلز، ود آنر ایکشن آف وارٹائم الائیز، چرچ ورلڈ سروس، نیشنل امیگریشن فورم، انٹرنیشنل ریفیوجیز اسسٹنس پروجیکٹ، افغانز فار بیٹر ٹومارو، وائس فار ریفیوجی ایکشن فنڈ، امیگرنٹ آے آر سی، افغان امریکن فاونڈیشن، ہیویمن راٹس فرسٹ اور ایڈووکیٹس فار ہیومن رائٹس جیسی تنظیمیں شامل ہیں۔