سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز اور تصاویر کے مطابق،جن میں سے کچھ کی تصدیق فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی اور رائٹرز نے کی ہے، ایران کےقصبےخمین میں واقع اسلامی جمہوریہ کے مرحوم بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی کے آبائی گھر کو جمعرات کی رات جلتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔اور وہاں مظاہرین کا ہجوم جمع ہے۔
رائٹرزنے بتایا ہے کہ ایران میں اسلامی جمہوریہ کے مرحوم بانی آیت اللہ روح اللہ خمینی کے آبائی گھر میں آتشزدگی کے ویڈیو کلپس سوشل میڈیا پر نمودار ہوئے ہیں، جن میں کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس کو مظاہرین نے نذر آتش کیا تھا۔
رائٹرز نے مخصوص محرابوں اور عمارتوں کا استعمال کرتے ہوئے دو ویڈیو کلپس کے محل وقوع کی تصدیق کی جو فائل کی تصاویر سے ملتی ہیں۔
سوشل میڈیا ویڈیوز میں دکھایا گیا ہے کہ عمارت میں آگ لگنے کے بعد درجنوں افراد خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔
ڈیوڈ پیٹریکاراکوس مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر، ایک موقر صحافی اور ایران پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے" #ایران کے حیران کن مناظر۔۔۔۔یہ گھر گزشتہ 30 برس سے ایک میوزیم ہے۔ یہ خود (اسلامی)جمہوریہ کی روح پر حملہ ہے۔"
تاہم نیم سرکاری خبر رساں ادارے تسنیم نے امام خمینی کے گھر کو آگ لگانے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ گھر کے باہر تھوڑی سی تعداد میں لوگ جمع ہوئے تھے ۔
آیت اللہ روح اللہ خمینی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ خمین نامی قصبے کےاس گھر میں صدی کے آخر میں پیدا ہوئے تھے -- جہاں سے ان کی کنیت بھی منسوب ہے-- ۔
آیت اللہ روح اللہ خمینی اس وقت کے ایرانی حکمران، امریکہ کےحمایت یافتہ شاہ محمد رضا پہلوی پرسخت ترین تنقید کرنے والے عالم دین بن گئے، بعد میں انہوں نے فرانس میں جلاوطنی اختیار کر لی لیکن پھر 1979 میں وہ اسلامی انقلاب کی قیادت کے لیے فرانس سے واپس آئے۔
خمینی کا انتقال 1989 میں ہوا تھا لیکن ان کےجانشین آیت اللہ علی خامنہ ای کے ماتحت علما کی قیادت میں ان کی شخصیت کو اب بھی مرکزیت حاصل ہے۔
ان کے آبائی گھر کو بعد میں خمینی کی یادگار کے طور پر ایک میوزیم میں تبدیل کر دیا گیا۔ یہ فوری طور پر واضح نہیں ہوسکا کہ اس عمارت کو کیا نقصان پہنچا ہے۔
SEE ALSO: ایران میں کب کب حجاب احتجاج کی وجہ بنا؟اخلاقی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے والی مہسا امینی کی موت سے شروع ہونے والے مظاہروں نے 1979 کے انقلاب کے بعد سے سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں میں ایران کے رہنماؤں کے لیے سب سے بڑا چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ایران کسی احتجاجی تحریک کی لپیٹ میں ہے۔ اس ملک کی حالیہ تاریخ ایسے کئی اتار چڑھاؤ دیکھ چکی ہے۔ایران میں 1979 کے انقلاب سے قبل ہوش سنبھالنے والی نسل ن یہاں لباس سے متعلق انتخاب کے لیے آزادی کا دور دیکھ چکی ہے۔
جب شاہ کی حکومت ختم ہوئی تو آیت اللہ روح اللہ خمینی اور ان کی پیروی کرنے والوں نے اس تبدیلی کے بعد پیدا ہونے والے خلا میں اپنی جگہ بنائی ۔ جس کے بعد انہوں نے یہاں ایک خالص مذہبی تصور کی بنیاد پر حکومت قائم کردی۔
حکومت کے قیام کے بعد 7 مارچ 1979 میں آیت اللہ خمینی نے ایران میں خواتین کے لیے حجاب پہننا لازمی قرار دے دیا۔ اتفاق سے اس کے اگلے ہی دن خواتین کا عالمی دن تھا۔ اس روز ہزاروں خواتین تہران سمیت ایران کے مختلف شہروں میں سڑکوں پر نکل آئیں۔
اس احتجاج کا حصہ رہنے والی خواتین کا کہنا ہے کہ اس تحریک کا محرک صرف حجاب کا مسئلہ نہیں تھا کیوں کہ ہمیں معلوم تھا کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ اب عورتوں سے ان کے حقوق لے لیے جائیں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کچھ تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ حجاب ایران میں احتجاج کی علامت بن چکا ہے۔
ان کے مطابق ایران میں حجاب کی پابندی بنیادی طور پر لوگوں کی ذاتی زندگی پر حکومت کے کنٹرول کا اظہار ہے۔
ٹوئٹر سمیت سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر ایسی ویڈیوز شئیر کی گئی ہیں جن میں مبینہ طور پرآیت اللہ خمینی کے نذر آتش کئے جانے والے گھر اور مظاہرین کو دکھایا گیا ہے۔
ایران میں کسی احتجاج کے دورانآیت اللہ خمینی کی تصاویر کو موقع پر نذر آتش کرنا ایک ایسی شخصیت کے خلاف ناقابل تصور کارروائیوں میں سے ہےجن کی برسی پر ہر جون کو سوگ کے لیے تعطیل ہوتی ہے۔
(یہ رپورٹ رائٹرز اور اے ایف پی کی معلومات پر مبنی ہے)