انیس سو اسی کے عشرے میں افغانستان میں آباد سکھوں کی تعدا د لاکھوں میں تھی جو نسل در نسل وہاں بستے چلے آرہے تھے۔ جہاں ان کے جمے جمائے کاروبار تھے لیکن پھر عشروں کی جنگ، جبر و ستم اور حالات کے سبب اس وقت ان کی تعداد چند سو رہ گئی تھی جب سال گزشتہ اگست میں طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھال لیا۔
ہر چند کہ طالبان نے سکھ برادری کو ان کے حقوق کے تحفظ کا یقین دلایا اور کہا کہ وہ وہاں ر ہیں اور اپنے مذہب پر عمل کریں۔ لیکن انہیں اس تشدد کے دوبارہ ہونے کے خوف نے افغانستان چھوڑنے پر مجبور کیا ہوا ہے جس سے ان کی کمیونٹی کو ماضی میں ہدف بنایا گیاتھا۔
سکھوں کے افغانستان سے تازہ ترین فرار کا سبب جون میں کابل میں ایک گوردوارے پر ہونے والا مہلک حملہ بنا جس میں ایک عبادت کرنے والا شخص مارا گیا اور سات دوسرے افراد زخمی ہوئے۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔
طالبان کی حکومت سے پہلے بھی سکھوں کی عبادت گاہوں پر حملے ہوئے تھے۔ اور ان حملوں کی ذمہ داری کا دعوی بھی اسلامک اسٹیٹ اور داعش کے نام سے جانے والے گروپ ہی نے کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
یہاں سےنکل کر سکھ زیادہ تر بھارت ہی جاتے ہیں۔ اور بھارتی حکومت نے ویزا،ریزیڈینسی پرمٹ اور انخلا کے لئے پروازوں کی پیشکش کرکے افغانستان سے نکلنے والے سکھوں اور ہندوؤں کی وطن واپسی میں سہولتیں پیدا کی ہیں۔ سکھ مت نے ہندوستان میں ہی جنم لیا تھا ور یہ ملک دنیا کی بیشتر سکھ آبادی کا وطن ہے۔
یہ صرف تشدد کا خوف ہی نہ تھا جس نےسکھوں کو افغانستان چھوڑنے پر مجبور کیا بلکہ طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد ملکی معشیت کی تباہ حالی نے بھی اس میں کردار ادا کیا جس کے سبب ان کے کاروبار تباہ ہو گئے۔ اور مستقبل تاریک ہو گیا۔
ساٹھ سالہ ہر بنس سنگھ ، جنہوں نے اپنے خاندان کے ساتھ نئی دہلی کے ایک گوردوارے میں پناہ لی ہوئی ہے۔ افغانستان چھوڑنے کے بعد یہی ا ن کا عارضی گھر ہے۔انہوں نے بتایا:" ہم اپنے گھر بار دوکانیں چھوڑ کر یہاں اپنے آپ کو بچانے کے لئے آئے ہیں۔ ہم بالکل خالی ہاتھ یہاں پہنچے ہیں۔"
Your browser doesn’t support HTML5
لیکن بہرحال ایک ایسے ملک سے نکلنا بھی بھی مشکل کام ہے جسے وہ نسل در نسل اپنا وطن کہتے اور سمجھتے آ رہے ہیں۔
سنگھ اور انکے بیٹے کی جلال آباد میں دوکان تھی۔ جس میں وہ مصالحے فروخت کرتے تھے۔ افغانستان میں سکھ کمیونٹی کے زیادہ تر ارکان یا دوکاندار تھے یا فارمسسٹس اور ہندوستان اور پاکستان سے آنے والا سامان بیچتے تھے۔ان کا کہنا ہے ان کے اور عام مسلمانوں کے درمیان دوستی تھی۔ جن میں سے بہت سوں کو وہ اپنا گاہک سمجھتے تھے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں میں کام کم ہوتا گیا۔ اور پہلے جیسی بات نہ رہی۔
سکھ برادری حکومت پر ایسے وقت میں زیادہ مدد کے لئے زور دے رہی ہے جب اسے نئے سرے سے زندگی کے آغاز کا مشکل مرحلہ درپیش ہے۔