امریکی ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور کے ایک جج نے پیر کے دن 1999 میں ہی من لی کے قتل میں پاکستانی امریکی عدنان سید کی سزا کو کالعدم قرار دینے کے بعد ان کی رہائی کا حکم دیاہے، یہ ایک ایسا کیس جسے ہٹ پوڈ کاسٹ "سیریل" میں پیش کیا گیا تھا۔
استغاثہ کے حکم پر، سرکٹ کورٹ کی جج میلیسا فن نے حکم دیا کہ تقریباً 41سالہ عدنان سید کی سزا کو ختم کر دیا جائے۔ جنہوں نے دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارا ہے۔
عدنان سید 18 سالہ لی کا گلا گھونٹ کر قتل کرنے کے الزام میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔ لی کی لاش بالٹی مور کے ایک پارک میں دبائی گئی تھی۔
جج میلیسا فن نے فیصلہ دیا کہ ریاست نے ایسے شواہد پیش کرنے کی اپنی قانونی ذمہ داری کی خلاف ورزی کی ہے جس سے عدنان کے دفاع کو تقویت مل سکتی تھی۔
SEE ALSO: امریکہ کے اعلان آزادی سے 80 برس قبل غلامی کو چیلنج کرنے والی سیاہ فام خاتونجج نے عدنان کو جی پی ایس لوکیشن مانیٹرنگ کے ساتھ گھر میں نظربند کرنے کا حکم دیا۔ جج نے یہ بھی کہا کہ ریاست کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا مقدمے کی نئی تاریخ مقرر کی جائے یا 30 دن کے اندر اندر کیس کو خارج کیا جائے۔
سماعت ختم ہوتے ہی جج نے کہا "عدنان ، آپ اپنے خاندان کے ساتھ شامل ہونے کے لیے آزاد ہیں‘‘۔
اٹارنی رابعہ چوہدری عدنان سید کی بچپن کی دوست ہیں اور ان کی بے گناہی کے لیے آواز اٹھاتی آئی ہیں۔ وہ اور دیگر کی وکالت کی کوششیں عدنان کے کیس میں متعدد قانونی کارروائیوں میں اہم کردار ادا کرتی رہی ہیں۔
عدنان کی رہائی پر انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹر پر عدنان کے ساتھ تصاویر پوسٹ کی ہیں۔
وائس آف امریکہ سے ایک انٹرویو میں رابعہ کا کہنا تھا کہ" ایسا بہت کم دیکھنے میں آتا ہے، اور ہم خوش ہیں کہ وکلا استغاثہ کی ٹیم نے اس کیس کی حقیقت کو سمجھا جو کئی سالوں سے جاری تھا"۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی تصاویر اور ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ عدنان اپنے خاندان کے ہمراہ گھر آ رہے ہیں۔ اور گھر میں لوگوں سے بات کر رہے ہیں۔
رابعہ نے وائس آف امریکہ سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم امید کرتے ہیں کہ نئی تحقیقات میں اس قتل میں ملوث شخص کو پکڑا جا سکے گا۔‘‘
23 سال بعد عدنان سید کی رہائی کی خبر اس وقت خبروں پر چھائی ہوئی ہے۔ امریکہ کے اندر اور باہر عام لوگوں اور ممتاز شخصیات نے عدنان سید کی رہائی پر سوشل میڈیا پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
عدنان سید کون ہیں ؟
عدنان سید1981 میں بالٹی مور ، میری لینڈ میں پاکستانی نژاد خاندان میں پیدا ہوئے ۔1999 میں وہ ان کی امریکی ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور میں ایک ہائی اسکول کے سینئیر طالبعلم تھے ۔وہ فٹ بال کے بہترین کھلاڑیوں میں سے ایک تھے ۔ان کے ساتھ ایک جنوبی کوریائی نژاد امریکی طالبہ"ہے من لی " بھی پڑھتی تھی ۔ جو عدنان کی گرل فرینڈ تھی ۔ دونوں نے اپنے تعلقات کو اپنے قدامت پسند تارکین وطن خاندانوں سے خفیہ رکھا تھا ۔نامعلوم وجوہات کی بنا پر دونوں کے تعلقات میں تلخی پیدا ہوگئی تھی ۔ جس کے بعد، لی نے ڈان نامی ایک شخص سے ڈیٹنگ شروع کی، جو اس کے ساتھ مقامی لینس کرافٹرز میں کام کرتا تھا۔
عدنان اس واقعے کے وقت 17 سال کے تھے۔ ان کے کیس کی مختصر ٹائم لائن کچھ یوں ہے۔
1999
اٹھارہ سالہ ہی من لی بالٹی مور کاؤنٹی کے ووڈلاون ہائی سکول کی طالبہ تھی۔ وہ اسکول چھوڑنے کے بعد لاپتہ ہوگئی تھی، اور تقریباً ایک ماہ بعد ان کی لاش ایک پارک میں دفن پائی گئی۔ آٹوپسی کے مطابق انہیں گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا تھا۔ پولیس کی تفتیش کے بعد عدنان سید اور ان کے ایک ساتھی طالب علم کو گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن ساتھی طالبعلم نے قصوروار نہ ہونے کی استدعا کی۔
2000
عدنان سید کے ایک دوست جے وائلڈز نے گواہی دی کہ اس نے ہی من لی کی لاش کو دفن کرنے میں عدنان کی مدد کی تھی۔ استغاثہ نے سیل فون ٹاور کا ریکارڈ پیش کیا، جس کے مطابق عدنان اس پارک کے قریب پائے گئے تھے جہاں سے مقتولہ کی لاش ملی تھی۔ عدنان کو لی کی موت، قتل، ڈکیتی، اغوا اور قید کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
2014
14 سال بعد، "سیریل" پوڈ کاسٹ نے اس کیس سے متعلق حقائق کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیا۔ ہفتہ وار بارہ اقساط کے دوران، پوڈ کاسٹ نے عدنان کے لیے ایک گواہ کی موجودگی کا انکشاف کیا۔ جس نے بتایا کہ قتل کے وقت وہ اور عدنان لائبریری میں تھے۔ گواہ ایشیا میک کلین نے کہا کہ وہ گواہی دینے کو تیار تھیں لیکن عدنان کی اس وقت کی وکیل ماریہ کرسٹینا گٹیریز نے ان سے رابطہ نہیں کیا۔
اس سیریز نے سیل فون ٹاور کے ریکارڈز کی ساکھ پر بھی سوال اٹھایا، اور انکشاف کیا کہ 1999 میں اکٹھے کیے گئے جسمانی شواہد کا عدنان سید کے ڈی این اے کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔
2016
میری لینڈ کے ایک جج نے جون میں ایک نئے مقدمے کی سماعت کی، مقتولہ کے اہل خانہ نے نئے مقدمے کے فیصلے پر دکھ اور غم و غصے کا اظہار کیا، وکلا نے عدنان کو ضمانت پر رہا کرنے کا مطالبہ کیا جسے مسترد کر دیا گیا۔
2018
میری لینڈ کورٹ آف اسپیشل اپیلز نے عدنان کو مقدمے میں نئے ٹرائل کا فیصلہ برقرار رکھا، اور اس بات سے اتفاق کیا کہ انہیں ایک غیر موثر وکیل دیا گیا تھا۔
2019
امریکہ کی سپریم کورٹ نے ان کا مقدمہ سننے سے انکار کر دیا۔ مارچ میں شروع ہونے والی ایچ بی او کی چار حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم، "عدنان سید کے خلاف کیس" نے انکشاف کیا کہ ڈی این اے ٹیسٹ عدنان کے نئے وکیلوں کی درخواست پر کیے گیے تھے۔ لیکن انہیں مقتولہ کے جسم یا سامان پر کسی اور کا ڈی این اے نہیں ملا۔
2022
اس سال مارچ میں، استغاثہ نے نئے ڈی این اے ٹیسٹنگ پر اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یہ جینیاتی پروفائلنگ میں پیشرفت کی وجہ سے قابل عمل ہے۔ میری لینڈ کے ایک نئے قانون نے استغاثہ کو ان مجرموں کی سزاؤں میں ترمیم کرنے کی صوابدید کی اجازت دی جو اپنے جرائم کے وقت 18 سال سے کم تھے اور کم از کم 20 سال قید کاٹ چکے تھے۔ رواں ماہ استغاثہ نے جج سے عدنان کے کیس میں نئے ٹرائل کی درخواست کی اور مقدمہ ختم کرنے کی درخواست کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک تحقیقات نے دو "متبادل مشتبہ افراد" کے ممکنہ ملوث ہونے کا انکشاف کیا ہے، جو کہ پراسیکیوٹر عدنان کو فراہم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔