خیبر پختونخوا حکومت کا خط پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے قرض پر اثرانداز نہیں ہو گا، ماہرین

فائل فوٹو

پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کے درمیان رواں سال جولائی میں طے پانے والے اسٹاف لیول معاہدے کی منظور ی کے لیے پیر کو آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس واشنگٹن میں ہو رہا ہے۔

عالمی مالیاتی ادارے کے 29 اگست کو ہونے والے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں پاکستان کے لیے لگ بھگ ایک ارب 17 کروڑ ڈالر کے قرض کی قسط کی منظوری دینے یا نہ دینے کے بار ے میں فیصلہ ایک ایسےوقت کیا جائے گا جب پاکستان حکومت زرمبادلہ کے کم ہوتے ہوئے ذخائر اور افراط زر کے پیش نظر اقتصادی بحران سے نمٹنے کے لیے کوشاں ہے۔

یہ اجلاس ایک ایسے وقت ہورہا ہے کہ جب پاکستان کو شدید سیلاب کا سامنا ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کے وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے حال ہی میں ایک خط کے ذریعےپاکستان کی وفاقی حکومت کو آگاہ کیا ہے کہ ملک میں آنے والے حالیہ سیلاب کی وجہ سے خیبر پختونخواہ کے صوبائی حکومت کے لیے عالمی ادارے کی بجٹ سرپلس سے متعلق شرط کو پورا کرنا شاید صوبے کی انتطامیہ کے لیے مشکل ہو جائے۔

تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی وفاقی حکومت خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کے درمیان بجٹ سرپلس کے معاملے میں سامنے آنے والے اختلافات آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے فیصلے پراثر انداز نہیں ہوں گے

پاکستان کی موجودہ اتحادی حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ سابق دور حکومت میں 2019 میں طے پانے والے قرض پروگرام کی بحالی کے لیے رواں سال اپریل میں اقتدار میں آنے کے بعد سے کوشاں رہی ہے۔

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب اس بات کا امکان ہے کہ 29 اگست کو واشنگٹن میں آئی ایم ایف کا ایگزیکٹو بورڈ پاکستان اور آئی ایم کے درمیان جولائی میں طے پانے والے اسٹاف لیول معاہدے کی منظوری دے دے گا۔

آئی ایم ایف کے قرض کی راہ میں اب بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں۔

اقتصادی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ عمومی طور پر جب کسی بھی ملک کے ساتھ آئی ایم ایف کا اسٹاف لیول معاہد ہ طے پا جاتا ہے تو پھر ایگزیکٹو بورڈ کی طرف سے اس کی منظوری میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فرخ سلیم نے کہا کہ وفاقی حکومت اور خیبر پختونخواہ کے درمیان بجٹ سرپلس کے معاملے میں سامنے آنے والے اختلافات کا ایک ایسے وقت میڈیا میں زیر بحث آنا جب عالمی ادارے کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس ہونے والا ہے شاید مناسب نہیں تھا لیکن ا س کے باوجود وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ معاملہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کے فیصلے پر اثر نداز نہیں ہو گاکیو نکہ ان کے بقول دنیا بھر میں عالمی مالیاتی ادارے کا رابطہ وفاقی حکومتوں سے ہوتا ہے۔

فرخ سلیم کہتے ہیں کہ عمومی طور پاکستان میں صوبائی حکومتیں اپنے مالی معاملات اور مشکلات کے بارے میں وفاقی حکومت سے بات کرتی رہتی ہیں اور اس میں کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے لیکن کسی بھی صوبائی حکومت کے طرف سے آئی ایم ایف کے معاملے پر بات کرنے کے لیے یہ مناسب وقت نہیں تھا جب وزیر عظم شہباز شریف کی موجودہ حکومت پاکستان تحریک انصاف کے سابق دور حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان 2019 میں طے پانےوالے پروگرام کو بحال کرنے کے لیے کوشا ں ہے

دوسری جانب پاکستان کے سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر پاکستان کو مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی موجود حکومت نے سخت سے سخت اقدمات کیے ہیں تاکہ آئی ایم ایف کا پروگرام بحال ہو۔

حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کومتنازع بنانا کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہوگا۔ کیونکہ ان کے بقول ایک طرف تو پاکستان بہت زیادہ مالی مشکلات میں گھرا ہوا تھا ۔ اب تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کا سامنا ہے۔ ان حالات میں ایسی باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔

یادر ہے کہ پاکستان نےآئی ایف پروگرام کی بحالی کے لیےعالمی ادارے کی تمام شرائط پوری کر لی ہیں جن میں حکومت کی طرف سے پٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی کا خاتمہ، بجلی اور گیس کے نرخ بڑھانے کے ساتھ ساتھ تجارتی اور بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لیے کئی اقدمات بھی شامل ہیں۔

فرخ سلیم کہتے ہیں کہ پاکستان کو رواں مالی سال کے لیے پاکستان کی مجموعی مالیاتی ضرورت 36 ارب ڈالر تھی اور ان کےبقول پاکستان نے 31 ارب ڈالر کا انتظام کر لیا ہے اور پانچ ارب ڈالر کا فرق تھا انھوں نے کہا کہ کہ عالمی مالیاتی ادارے سے ایک ارب ڈالر ملنے کے بعد پاکستان کے لیے یہ فرق 4 ارب ڈالر رہ گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ فرق قطر اور سعودی عرب کی طرف سے سرمایہ کاری اور مالیاتی معاونت سے پورا ہو گیا ہے۔

سیلاب سے ہونے والے نقصانات کےازالے کے لیے پاکستان کو اربوں ڈالر درکار ہوں گے

اگرچہ پاکستان کے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کہہ چکے ہیں سیلاب کی وجہ سے پاکستان میں ہونے والے نقصانات ایک تخمینے کے مطابق لگ بھگ 10 ارب ڈالر ہو سکتے ہیں لیکن فرخ سلیم کہتے ہیں کہ یہ نقصانات اس سے کئی گنازیادہ ہو سکتے ہیں ان کےبقول ان کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کو لگ بھگ 18 سے 20 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی ۔

دوسری جانب پاکستان کے سابق وزیر خزانہ حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ اس وقت عالمی برادری کی توجہ یوکرین پر ہے اس لیے پاکستان کو شاید اس کی ضروریات کو پورا کرنے کےاتنی معاونت نہیں ملی سکتی ہے جتنی پاکستان کو توقع ہے۔

یاد رہے کہ آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کے تحت پاکستان کو چھ ارب ڈالر میں سے تین ارب ڈالر مل چکے ہیں اور آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی طرف سےمنظوری کے بعد پاکستان کو آئی ایم ایف کی طرف سے قرض کی مد میں فراہم کی جانے والی رقم لگ بھگ چار ارب 20 کروڑ ڈالر ہو جائے گی ۔

لیکن اب ملک میں آنے والے تاریخی سیلاب کی وجہ سے ملک کے وسیع علاقے میں بنیادی ڈھانچے اور کھڑی فصلوں کو شدید نقصان پہنچا ہے جس کے ازالے کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کےعلاوہ مزید اربوں ڈالر کی ضرورت ہوگی۔

یادر ہے کہ پاکستان کو 2010 کے بعد شدید ترین سیلاب کاسامنا ہے اس وقت بھی عالمی برادری نے پاکستان کی مدد کی تھی۔ اس بات کا امکان ہے کہ آئی ایم ایف 50 کروڑ ڈالر کا ہنگامی امدادی پیکیج شاید پاکستان کو فراہم کر دے ۔

لیکن اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے ملک کو ایک مشکل مالی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور حکومت کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط مشکل کا باعث بن سکتی ہیں۔فرخ سلیم کہتے ہیں کہ شاید مستقبل میں حکومت آئی ایم ایف سے پاکستان کے لیے شرائط نرم کرنے پر بات کر سکتی ہے اور آئی ایم ایف اس پر ہمددردانہ طورپر غور کر سکتاہے۔