قطر :تنخواہ نہ ملنے پر احتجاج کرنے والے 60 ورکرز گرفتار، کچھ ملک بدر

قطر فیفا ورلڈ کپ 2022 کی میزبانی کر رہا ہے اور دارلحکومت دوحہ میں ایک عمارت کو ٹرافی کے امیج سے سجایا گیا ہے (اے ایف پی)

ویب ڈیسک۔ قطر نے، ایک ایڈووکیسی گروپ کے مطابق، حال ہی میں 60 ایسے غیر ملکی ورکروں کو گرفتار اور کئی ایک کو واپس ان کے ملکوں میں بھجوا دیا گیا ہے، جنہوں نے اس ماہ تنخواہ نہ ملنے پر احتجاج کیا تھا۔

یہ خبر ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہے جب قطر تین ماہ بعد فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کرنے جا رہا ہے،اور پہلے ہی اجرت او ر مزدوری سے متعلق سخت بین الاقوامی چھان بین کا سامنا کر رہا ہے۔

تنخوا نہ ملنے پر ورکروں نے احتجاج ایک ہفتہ قبل کیا تھا اور قطر ی حکومت کا ردعمل اس تشویش میں اضافہ کر سکتا ہے۔

لیبر کنسلٹینسی ’ ایکووڈیم ریسرچ‘ کے سربراہ نے جو اس واقعہ کے بارے میں تحقیقات کر رہے ہیں، کہا ہے کہ یہ گرفتاریاں قطر میں کام کرنے والے ملازمین کے ساتھ بہتر سلوک کے وعدے کو مشکوک بناتی ہے۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفےٰ قادری کہتے ہیں کہ ’’ کیا یہ واقعی حقیقت ہے جو سامنے آ رہی ہے؟‘‘

ایسوسی ایٹڈ پریس کو جاری کیے گئے ایک بیان میں قطری حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ احتجاج کرنے والے کئی ایک افراد کو اس لئے گرفتار کیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے عوامی تحفظ کے قوانین کی خلاف ورزی کی تھی۔ بیان میں گرفتاریوں یا احتجاج کرنے والوں کی ملک بدری کے بارے میں مزید تفصیل نہیں دی گئی ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

پاکستان: مزدور کم سے کم ماہانہ اجرت پر عمل درآمد کے منتظر

آن لائن جو وڈیوز پوسٹ کی گئی ہیں ان میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ساٹھ کے قریب ورکر ز 14 اگست کو دوحہ میں البندارے انٹرنیشنل گروپ کے دفاتر کے سامنے تنخواہیں نہ ملنے پر احتجاج کر رہے ہیں ۔ یہ ایک بڑی کارپوریشن ہے جو تعمیرات، زمین کی خرید و فروخت، ہوٹل، فوڈ سروسز اور دیگر شعبوں میں کام کر رہی ہے۔

البندارے انٹرنیشنل گروپ نے، جو ایک نجی ملکیت ہے، درخواست کے باوجود اپنا موقف نہیں دیا ہے۔ اور جو ٹیلی فون نمبر اس گروپ کے ساتھ رجسٹرڈ ہے، وہاں پر کال کرنے کی کوشش بھی کی گئی مگر نمبر نہیں مل سکا۔

قطری حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ کمپنی نے تنخواہیں نہیں دی ہیں اور یہ کہ وزارت محنت متاثرہ ورکروں کو تنخواہیں اور ان کی مراعات ادا کرے گی۔

حکومت کے مطابق البندارے گروپ کے خلاف اس واقعے سے پہلے ہی حکام تنخواہوں کی عدم ادائیگی سے متعلق تحقیقات کر رہے ہیں۔ اور اب اس معاملے کو حل کرنے کے لیے دی گئی مہلت گزرنے کے بعد مزید قدم اٹھائے جا رہے ہیں۔

اکوڈیم ریسرچ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر مصطفےٰ قادری کہتے ہیں کہ پولیس نے کئی مظاہرین کو گرفتار کر کے اس کو حراستی مراکز میں منتقل کیا ۔ کئی لوگوں نے بتایا ہے کہ ان کو جس جگہ منتقل کیا گیا وہاں گرمی سے ان کا دم گھٹ رہا تھا کیوں کہ ایرکنڈیشن کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ دوحہ میں درجہ حرارت اس ہفتے 41 سنٹی گریڈ تک پہنچا ہے۔

SEE ALSO: اگر ہفتہ ’چار دن‘ کا ہو جائے تو کیا ملازمین کی کارکردگی بہتر ہو جائے گی؟

مسٹر قادری نے پولیس کے اس بیان کا حوالہ دیا ہے کہ اگر مظاہرین اس گرمی میں مظاہرہ کر سکتے ہیں تو وہ اس گرمی میں بغیر ائر کنڈیشن کے سو بھی سکتے ہیں۔

ایک زیر حراست ورکر نے جس نے ایکواڈیم کو فون کیا تھا، بتایا ہے کہ بنگلہ دیش، مصر، بھارت، نیپال اور فلپین سے تین سو کے قریب ورکرز اس کمپنی کے ساتھ وابستہ تھے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ اس مظاہرے کے بعد کئی ایک کو تنخواہیں ادا کر دی گئی ہیں جبکہ کئی اب بھی تنخواہ کے منتظر ہیں۔ اس بیان کی فوری طور پر تصدیق نہیں کی جا سکی ہے۔

(خبر کا مواد ایسوسی ایٹڈ پریس سے لیا گیا)