عالمی بینک نے جمعہ کے روز کہا ہے کہ وہ سری لنکا کو اس وقت تک نئی مالی امداد کی پیشکش نہیں کرے گا جب تک کہ دیوالیہ ہونے والا ملک اپنی تباہ حال معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے نظام میں مضبوط اصلاحات نہیں لاتا۔
سری لنکا غیر معمولی معاشی بدحالی کا شکار ہے جہاں 22 ملین افراد مہینوں سے خوراک اور ایندھن کی قلت، بلیک آؤٹ اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کو برداشت کر رہے ہیں۔
جنوبی ایشیائی ملک اپریل میں اپنے 51 بلین ڈالر کے غیر ملکی قرضے میں نادہندہ ہوگیا تھا۔ اور اس ماہ کے شروع میں زبردست احتجاجی مظاہروں نے اس وقت کے صدر گوٹابایا راجا پاکسے کو مستعفی ہونے اور ملک چھوڑ نے پر مجبور کر دیا تھا۔
عالمی بینک نے کہا ہے کہ وہ سری لنکا کے عوام پر بحران کے اثرات کے بارے میں فکر مند ہے لیکن وہ اس وقت تک فنڈز دینے کو تیار نہیں جب تک حکومت بنیادی ضروری اصلاحات نہیں کر لیتی۔
ایک بیان میں عالمی بینک نے کہا:"جب تک ایک مناسب میکرو اکنامک پالیسی فریم ورک قائم نہیں ہوتا، ورلڈ بینک سری لنکا کو نئی مالی امداد کی پیشکش کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے۔"
"اس کے لیے نظام میں مظبوط اصلاحات کی ضرورت ہے جو اقتصادی استحکام پر توجہ مرکوز کریں، اور اس بحران کو پیدا کرنے والی بنیادی وجوہات کو بھی حل کریں۔"
عالمی بینک نے مزید کہا ہےکہ اس نے پہلے ہی موجودہ قرضوں سے 160 ملین ڈالر فوری طور پر درکار ادویات، کھانا پکانے کی گیس اور اسکول میں بچوں کی خوراک کی مد میں مالی اعانت کے لیے مختص کر دئے ہیں۔
سری لنکا اس وقت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ساتھ بیل آؤٹ پیکج پر بات چیت کر رہا ہے، لیکن حکام کا کہنا ہے کہ اس عمل میں مہینوں لگ سکتے ہیں۔
جزیرہ نما ملک کے پاس انتہائی ضروری درآمدات کے لیے بھی زرمبادلہ ختم ہو گیا ہے، اور اشیا کی قلت نے عوامی غصے کو اشتعال میں تبدیل کر دیا ہے۔
راشن یعنی کوٹے کے حساب سے ملنے والے پیٹرول کے حصول کے لیے لوگ دنوں تک لمبی قطاروں میں رہتے ہیں اور سرکاری اہلکاروں کو بتایا گیا ہے کہ وہ گھر سے کام کریں تاکہ سفر کو کم کیا جاسکے اور ایندھن کی بچت کی جاسکے۔
جمعے کو جاری ہونے والے کولمبو کنزیومر پرائس انڈیکس (CCPI) کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی میں مہنگائی مسلسل دسویں ماہانہ ریکارڈ کے لیے بڑھ کر 60.8 فیصد ہو گئی، جبکہ سری لنکا کا روپیہ اس سال امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی نصف سے زیادہ قدر کھو چکا ہے۔
SEE ALSO: رانیل وکرما سنگھے سری لنکا کے صدر منتخب، احتجاج جاری رہنے کا اندیشہاقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کا اندازہ ہے کہ سری لنکا کے ہر چھ میں سے پانچ خاندان کم معیار کا کھانا خریدنے، کم کھانے یا بعض صورتوں میں کھانا مکمل طور پر چھوڑنے پر مجبورہیں۔
یہ بحران 9 جولائی کو اس وقت عروج پر پہنچا، جب ہزاروں مظاہرین نے راجا پاکسے کی رہائش گاہ پر دھاوا بول دیا، جس سے صدر سنگاپور فرار ہو گئے اور مستعفی ہو گئے۔
(خبر کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا)