روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے اب تک 37 لاکھ کے قریب مہاجرین نے یوکرین سے انخلا کیا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد اب تک اتنی بڑی تعداد میں ہجرت نہیں دیکھی گئی۔ امیگریشن کے بعض وکلا کے مطابق، جو چیز باعث حیرت ہے وہ دوسرے ممالک کی جانب سے ان مہاجرین کو فوری طور پر خوش آمدید کہنا ہے۔
یوکرین سے ہجرت کرنے والے شہری زیادہ تر پولینڈ، سلوواکیا، ہنگری، رومانیہ اور مالدوا جا رہے ہیں۔ اس وقت زیادہ تر مہاجرین نے پولینڈ کا رخ کیا ہے۔ بہت سے یوکرینی شہری اپنے خاندان کے ساتھ متحد ہونے کے لیے امریکہ کا رخ کر رہے ہیں، کچھ امریکہ اور میکسیکو کے بارڈر پر بھی پہنچے ہیں۔
بائیڈن انتظامیہ پر یوکرین سے آنے والے مہاجرین کے لیے راستے کھولنے کے لیے دباؤ ہے۔ انتظامیہ نے جمعرات کے روز اعلان کیا تھا کہ امریکہ ایک لاکھ کے قریب یوکرینی مہاجرین کو پناہ دے گا۔
لیکن کیا امریکہ یوکرین سے آنے والے مہاجرین کے ساتھ افغان مہاجرین سے، جو جنگ سے ہی بھاگ کر یہاں آئے ہیں، مختلف سلوک برت رہا ہے؟
Your browser doesn’t support HTML5
کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والی امیگریشن کی وکیل ایلی بولور نے کہا کہ ’’فی الحقیقت ایسا ہی ہے۔‘‘ ان کے مطابق وہ اگرچہ اس بات پر خوش ہیں کہ امریکہ ایک لاکھ یوکرینی مہاجرین کو ملک میں آنے دے گا۔
بولور کا کہنا تھا کہ یوکرینی اور افغان مہاجرین کو ملک میں خوش آمدید کہنے میں بھی فرق ہے۔ 'ٹیمپرری پروٹیکٹڈ سٹیٹس' کے پروگرام کے مطابق مہاجرین کو قانونی حیثیت دی جاتی ہے، جس کے تحت انہیں 18 ماہ تک ملک سے کوئی نکال نہیں سکتا جب کہ ملک میں کام کرنے کا قانونی پرمٹ بھی ملتا ہے۔
ہوم لینڈ سیکیورٹی کے سیکریٹری الیہاندرا مایورکس نے روس کے یوکرین کے حملے کے ایک ماہ بعد ہی اعلان کیا کہ یوکرین سے آنے والے مہاجرین کو یہ سٹیٹس دیا جائے گا، جب کہ افغانستان سے آنے والے مہاجرین کو یہ سٹیٹس سات ماہ بعد دیا گیا۔
بولور کا کہنا تھا کہ ان کی تنقید یوکرینی مہاجرین کو یہ قانونی حیثیت دینے پر نہیں بلکہ اس سے وہ دونوں طرح کے مہاجرین کے مابین برتی جانے والی تفریق کو واضح کر رہی ہیں۔
انسانی بنیادوں پر پیرول
کورنیل یونیورسٹی میں امیگریشن کے قانون کے پروفیسر سٹیفن یئیل لوار نے وائس آف امریکہ کی ایلین بیروز سے بات کرتے ہوئے اس بات سے اتفاق کیا کہ یوکرینی مہاجرین کو ٹیمپرری پروٹیکٹڈ سٹیٹس امریکہ نے بہت جلد دیا۔ لیکن انہوں نے کہا کہ یوکرینی اور افغان مہاجرین دونوں معمول کے امیگریشن نظام سے گزریں گے۔
انہوں نے کہا کہ یہاں امریکہ میں ایسا نظام نہیں ہے کہ لوگ جلد ہجرت کر کے آسکیں۔
یئیل لوار نے کہا کہ افغان مہاجرین کے لیے انسانی بنیادوں پر پیرول کا طریقہ کار چالیس ہزار درخواستوں کی وجہ سے اس میں زیادہ وقت لگ رہا ہے، یہاں تک کہ کچھ لوگ چھ ماہ سے انتظار کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے کا الزام ثابت ہونے پرپوٹن کو جوابدہ بنایا جائے گا، بائیڈنانہوں نے کہا کہ انہیں نہیں پتا کہ انتظامیہ یوکرینی مہاجرین کی پیرول کی درخواستوں کو کیسے نمٹائے گی اور اگر انتظامیہ ان کے لیے اس طریقہ کار کو جلد نمٹاتی ہے تو پھر یہ شکایت درست ہوگی کہ یوکرینی مہاجرین کے لیے یہ طریقہ کار جلد نمٹایا گیا جب کہ افغان اور دوسرے ممالک کے مہاجرین کے لیے ایسا نہیں کیا گیا۔
انسانی بنیادوں پر پیرول ایمرجنسی حالات میں امریکہ میں داخلے کی خصوصی اجازت کو کہتے ہیں۔ اگرچہ اس کی بنیاد پر مستقل رہائش کی اجازت نہیں ملتی لیکن پیرول پر موجود لوگ قانونی حیثیت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ اس کے لیے وہ امریکہ میں داخل ہونے کے بعد 'اسائلم' کا طریقہ کار بھی اپنا سکتے ہیں اور اگر ان کے پاس سپانسرشپ موجود ہو تو وہ طریقہ کار بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
امریکی ریفیوجی ایڈمیشن پروگرام
مہاجرین کے ملک میں بسانے کا عمل پیچیدہ دفتری معاملہ ہے جہاں اس بات کا تعین کیا جاتا ہے کہ کن افراد کو ملک میں بسایا جائے۔
لیکن وائٹ ہاؤس کی جانب سے ایک لاکھ یوکرینی اور دوسرے مہاجرین، جو روسی جنگ سے فرار ہو رہے ہیں کو ملک میں داخل کرنے کے اعلان کے بعد بہت سے لوگ خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ کیا انتظامیہ کے پاس اتنی گنجائش ہے کہ وہ اس طریقہ کار کو موجودہ رفتار سے جلد مکمل کر سکے گی۔
یئیل لوار کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ انتظامیہ اگلے چھ ماہ کے اندر ان افراد کے لیے ضابطے کی کارروائی کر سکے گی۔ان کے مطابق ’’ان لوگوں کو امریکہ لانے کے لیے شاید کافی عرصہ لگ جائے گا۔‘‘
SEE ALSO: روس یوکرین تنازع: یورپ کے دروازے پناہ گزینوں کے لیے کھل گئےیہ طریقہ کاراقوام متحدہ سے شروع ہوتا ہے جہاں کسی کو بھی پہلے مہاجر کی حیثیت دی جاتی ہے۔ایک بار جب مہاجرین اقوام متحدہ کی جانب سے جانچ کے عمل سے گزر جاتے ہیں تو پھر ان کا کیس امریکہ کے حوالے کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر مہاجرین کو انٹرویو، طبی معائنے اور جانچ پڑتال کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ امریکہ جانے کے لیے اجازت کے لیے انہیں دو سے پانچ برس کا عرصہ لگ جاتا ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں امریکی ریفیوجی ایڈمیشن پروگرام کے تحت مہاجرین کے داخلے کی تعداد ڈرامائی انداز میں کم ہوگئی تھی جس کی وجہ سے حکومت اور ری سیٹلمنٹ ایجنسیوں کے پاس مہاجرین کی تعداد بڑھنے پر ان کے کیسز پر کام کرنے کے لیے بہت کم وسائل بچے ہیں۔
یئیل لوار کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ کے دور میں ری سیٹلمنٹ ایجنسیوں کو بجٹ میں کٹوتیوں کی وجہ سے بہت نقصان ہوا تھا۔ اس لیے وہ مہاجرین کی بڑی تعداد کے آنے کے حالات کے لیے تیار نہیں ہیں۔ معمول کے حالات میں بھی انہیں مہاجرین کے داخلے میں ایک سے زائد برس لگ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتے کہ انتظامیہ ایسی صورت میں کارروائی کو کیسے تیز کرے گی۔
اگرچہ امریکہ میں ایک برس میں زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ 25 ہزار مہاجرین کے داخلے کی اجازت ہے لیکن پانچ ماہ میں صرف 6 ہزار 494 مہاجرین کا داخلہ ہوسکا، کیونکہ ری سیٹلمنٹ ایجنسیاں 76 ہزار افغان مہاجرین کے کیسز پر کام کرنے میں مصروف تھیں۔ ان مہاجرین کو معمول کے مہاجرین میں شمار نہیں کیا جارہا۔
ٹائٹل 42 کے تحت استثنا
کچھ یوکرینی مہاجرین نے میکسیکو کا سفر کیا ہے تاکہ وہ امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر جا کر امریکہ میں سیاسی پناہ کے لیے درخواست دے سکیں۔
امریکہ کے امیگریشن کے قانون کے تحت سرحد پر موجود حکام ان افراد کی جانچ کرتے ہیں جو یہ بیان دیں کہ وہ ظلم و ستم، کشیدگی یا مرنے اور تشدد کے امکان کی وجہ سے اپنے ملک میں واپس جانے سے خوف زدہ ہیں۔
SEE ALSO: یوکرین سے انخلا کے دوران بھی نسلی تعصب برتنے کی شکایاتٹائٹل 42 کی ہدایات جو وبا کے دوران عوام کے حفظان صحت کی احتیاط کی وجہ سے مہاجرین کو فوری طور پر داخلے سے روکتی ہے۔ لیکن بائیڈن انتظامیہ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ امریکی امیگریشن حکام اپنے اختیارات استعمال کرتے ہوئے یوکرین سے آنے والے مہاجرین کو اس سلسلے میں استثنا دے سکتے ہیں۔
یئیل لوار کے مطابق انتظامیہ نے خارجہ پالیسی کے تحت یوکرینی مہاجرین کے لیے اس سلسلے میں استثنا جاری کیا ہے۔ ان کے بقول قانونی طور پر اس سلسلے میں استثنا دینے کے لیے کوئی گنجائیش موجود نہیں ہے۔ ’’انہوں نے خارجہ پالیسی کے تحت فیصلہ لیا ہے کہ وہ یوکرینی مہاجرین کو داخل ہونے دیں گے نہ کہ روسی یا افغان یا دوسرے ممالک کے لوگوں کو۔‘‘
سان ڈیاگو ٹریبون کے مطابق کچھ یوکرینی مہاجرین نے امریکہ کی سان یسڈرو پورٹ آف اینٹری میں پہنچ کر سیاسی پناہ کی درخواست دی ہے جس پر انہیں داخلہ دیا گیا۔افغان اور یوکرینی مہاجرین کے لیے امریکہ عوام کی حمایت میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔
مارچ میں یو گوو پول میں 15 سو امریکیوں سے پوچھے گئے سوالات کے جواب میں 54 فیصد افراد نے یوکرینی مہاجرین کے داخلے کے حق میں رائے دی جب کہ 25 فیصد نے اس کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا۔
افغان مہاجرین کو خوش آمدید کہنے کے لیے حمایت کا تناسب 42 فیصد ہے۔
ایسے ہی پیو ریسرچ سینٹر کے پول کے مطابق امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی کے حمایتی یوکرین کے مہاجرین کے داخلے کے لیے زیادہ پرجوش دکھائی دئے۔ 80 فیصد ڈیموکریٹک پارٹی کے حمایتی یوکرینی مہاجرین کے داخلے کے لیے رضامند دکھائی دئے جب کہ ری پبلیکن پارٹی کے حامیوں میں سے 57 فیصد نے اس کے حق میں رائے دی۔
محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے ای میل کے ذریعے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ یوکرینی مہاجرین کے لیے دروازے کھولنے سے امریکہ کی افغان مہاجرین کے لیے کئے گئے وعدوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’’اگست 2021 میں کابل حکومت کے انہدام کے بعد سے 75 ہزار سے زائد افغان مہاجرین کو خوش آمدید کہنے پر ہمیں فخر ہے۔ ہم آپریشن ویلکم الائز کے تحت افغان مہاجرین کو خوش آمدید کہتے رہیں گے۔ ان میں وہ 600 افغان مہاجرین بھی شامل ہیں جو پچھلے دو ہفتوں میں امریکہ آئے ہیں۔ افغان مہاجرین، خصوصاً جنہوں نے افغانستان میں امریکہ کے لیے خدمات سرانجام دی ہیں، کو امریکہ میں بسانے کا ہمارا عزم برقرار رہے گا۔‘‘