روسی ٹینکوں کےداخلے کےبعد خوف بڑھ گیا ہے آیا معاملہ یوکرین تک ہی رکے گا؟

یوکرین کی فوج کا ایک سپاہی ڈونسک کے علاقے میں پہرہ دیتے ہوئے۔ 22 فروری 2022ء

روسی ٹینک قیام امن اور یوکرین سے الگ ہونے والی دو جمہوریتوں کی حفاظت کے نام پر منگل کی شب مشرقی یوکرین میں داخل ہوگئی ہیں ۔یہ ریاستیں آٹھ برس قبل ماسکو کی حمایت سے وجود میں آئی تھیں جنھیں اب روس نے باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا ہے۔

روسی صدر پوٹن کی چھپن منٹ کی تقریر کے بعد، جس میں انھوں نے یوکرین نامی ملک کے وجود سے ہی انکار کردیا تھا، کیف میں بہت کم لوگوں کو اب اس بات میں کوئی شک رہ گیا ہے کہ بکتر بند گاڑیاں جلد یا بدیر یوکرین کے ڈونباس علاقے میں آگے نہیں بڑھیں گی۔ ان ریاستوں کے ساتھ روس کے دوستی کے معاہدے کے تحت اب توقع کی جارہی ہے کہ ڈونیسک اور لوہانسک ریاستوں میں زیادہ بڑے پیمانے پر فوجی کارروائی ہوگی۔

ڈونیسک میں موجود مغربی سفارتکاروں اور وہاں کے رہائشیوں نے منگل کی رات وہاں روسی ٹینکوں کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔

یوکرین میں مہینوں سے جاری سیاسی تعطل ایک نئے اور خطرناک موڑپر آگیا ہے۔ مغربی ممالک مشترکہ طور پر اس کی مذمت کررہے ہیں جبکہ مزید کئی ممالک نے اپنے سفارتکاروں کو کیف چھوڑ نے اور مغربی یوکرین کے ایک مقام پر منتقل ہونے کا حکم دے دیا ہے جو کہ پولینڈ کی سرحدسے تھوڑی ہی دور واقع ہے۔ ان کے یہ اقدامات اس بڑھتی ہوئی تشویش کی عکاس ہیں کہ یوکرین کی سرحد وں پر تعینات روسی فوجیوں کو جلد ہی یوکرین کے دارلحکومت کو نشانہ بنانے کا حکم دیا جاسکتا ہے۔

آسٹریلیا وہ نیا ملک ہےجس نے امریکہ، برطانیہ اور دیگر کے ساتھ مل کر اپنے مشن کو حفاظت کے لیے پولینڈکے قریب منتقل کردیا ہے۔


جنگ شروع ہوگئی ہے؟

مغربی انٹلی جنس حکام کو خدشہ ہے کہ الگ ہونے والی جمہوریہ کو تسلیم کرنا ایک بڑے جنگی منصوبے کا محض ایک جزُ ہےجسے ہفتوں پہلے ترتیب دیا گیا اور اب سامنے آرہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ یوکرین کے قریب جمع ہونےوالی دو تہائی روسی افواج اب سرحدوں سے پچاس کلومیٹر اندر اور جنگی حالت میں ہیں اور فوجی آپریشن شروع کرنے کےلیے تیار ہیں۔ یہ بات ابھی واضح نہیں کہ کریملن نے ان اقدامات کی منظوری دی ہے یا نہیں لیکن یہ ایک مکمل حملہ ہے۔

یوکرین کے صدر ولادومیر زیلینسکی نےعلی الصبح ٹیلی ویژن پر خطاب میں یوکرین کے شہریوں کویقین دلانےکی کوشش کی ہے کہ ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے اور یوکرین مزید روسی جارحیت خلاف اپنے دفاع کا حق محفوظ رکھتا ہے۔انھوں نے کہا کہ" ہم اپنی سرزمین پر ہیں، ہم کسی سےیا کسی چیز سے نہیں ڈرتے۔"

زیلنسکی نے یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم کے بین الااقوامی مانیٹروں پر زور دیا ہے کہ وہ اس اشتعال انگیزی کوروکنے میں مدد کے لیے اپنا کام جاری رکھیں۔

یوکرینی صدر نےکہا کہ انھوں نے نورمنڈی فارمیٹ ممالک جرمنی، فرانس، یوکرین اور روس کاہنگامی اجلاس طلب کیا ہے تاکہ ڈونباس میں ماسکو کے اس تازہ اقدام پر بات چیت کی جاسکے اور انھوں نے مغربی ممالک سے یوکرین کے ساتھ کھڑا رہنے کی اپیل بھی کی ہے۔ زیلینسکی نے کہا کہ" اب یہ دیکھنا بہت ضروری ہے کہ ہمارا حقیقی دوست اور ساتھی کون ہے اور کون صرف لفظوں سے روسی فیڈریشن کو ڈرانا جاری رکھے ہوئے ہے۔

ہفتے کو میونخ سیکورٹی کانفرنس سے خطاب میں یوکرینی رہنما نے مغربی طاقتوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ وہ روس کو جارحیت سے روکنے کےلیے زیادہ کچھ نہیں کررہے۔

لندن میں برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے منگل کو اپنے اعلیٰ سیکورٹی اور انٹلی جنس حکام کاایک اجلاس بلایا تاکہ برطانیہ کے ردعمل پر غور کیا جاسکے۔ برطانوی و زیر خارجہ لزٹرس نے ٹویٹ کیا ہےکہ برطانیہ جلد ہی روس پر بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور یوکرین کی خود مختاری اور علاقائی سلامتی پر حملے کے جواب میں نئی پابندیوں کا اعلان کرے گا۔

برطانوی حکام نے کہا ہے کہ یوکرین کے صدر کے ساتھ فون پر بات کرتے ہوئے بورس جانسن نے زیلینسکی کویقین دہانی کرائی ہے کہ وہ یوکرین کی درخواست پر مزید دفاعی سازوسامان بھیجنے کے لیے تیار ہیں۔

دوسرے مغربی اتحادی رہنما بھی منگل کو روس کو جواب دینے اور مشترکہ ردعمل دینے کی تیاری کررہے تھے۔ انھیں اب بھی یقین ہے کہ سفارتکاری بہتر رہے گی اور پوٹن کو پابندیوں کی دھمکیوں سے روکا جاسکتا ہے۔

یورپی یونین کا کہنا ہے کہ وہ " اس غیر قانونی عمل میں ملوث افراد کے خلاف پابندیوں کی شکل میں ردعمل دیں گے جبکہ نیٹو کے سیکریٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے روس پر مشرقی یوکرین میں تنازعہ کو ہوا دینے اور مزید حملے کے لیے بہانہ تلاش کرنے کا الزام لگایا ہے۔

یورپی رہنماوں کو خدشہ ہے کہ روسی صدر یوکرین میں اس سے بھی بڑی فوجی کارروائی کا حکم دے سکتے ہیں، کیونکہ یوکرین کے بارے میں تاریخی حوالے سے ان کے خیالات یہ ہیں کہ سوویت یونین کے زوال کے موقع پر مغرب نے روس سے اس کا یہ علاقہ چھین لیا تھا۔

یوکرین سے الگ ہونے والی جمہوریہ کو تسلیم کرنے کے فیصلے کا جواز روسی صدر پوٹن نے یہ دیا ہے کہ یوکرین روس کی تاریخ کا ایک اٹوٹ حصہ ہے اور مشرقی یوکرین قدیم روسی علاقہ رہاہے۔

ماہرین کے مطابق روسی صدر کو دونوں الگ ہونےوالی جمہوریہ کوتسلیم کرنے اور اپنی افواج ان کی مدد کے لیے روانہ کرنے کے فیصلےمیں ان کی تمام اعلیٰ قیادت کی حمایت حاصل ہے۔ بلکہ وہ ان پر زو دیتی رہی ہیں کہ ڈونیسک اور لوہانسک کوتسلیم کرلیں،کیونکہ انھیں اطلاعات تھیں کہ یوکرین ان جمہوریاوں پر دوبارہ قبضہ کرنے کے لیے حملے کی تیاری کررہا ہے۔

پوٹن نے اپنی تقریر میں امریکہ اور نیٹو پر الزام عائد کیا تھاکہ انھوں نے یوکرین کو جنگ کے تھیڑ میں تبدیل کردیا ہے۔ انھوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یوکرین جوہری ہتھیار بنانے کی ساز ش کررہا ہےجسے وہ روس پر حملے کے لیے استعمال کرسکتا ہے۔

جرمنی اورفرانس یوکرین کے تنازعےکےسفارتی حل کی کوششوں کی قیادت کرتے رہے ہیں۔انھیں مشرقی یوکرین میں جنگ بندی اور دیرپا سمجھوتے کی امید تھی ۔

کریملن حکام کا کہنا ہے کہ ان کا یوکرین پر مکمل حملےکا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور وہ اب بھی بات چیت کے لیے تیار ہیں۔ اقوام متحدہ میں روس کے سفیر واسیلی نیبزیا نے منگل کو کہا کہ ہم سفارتی حل کے لیے تیار ہیں۔ تاہم، ڈونباس میں ایک نئی خونریزی کی اجازت دینا ایسا کام ہے جس کا ہم ارادہ نہیں رکھتے۔

آزاد مبصرین کے مطابق ملک کے مشرقی فرنٹ میں یوکرین کے فوجیوں کو گولہ باری اور توپ خانے سے بمباری کی صورت میں جواب دینے کی سخت ممانعت ہے کیونکہ یوکرینی حکام کو خدشہ ہے کہ ان جھڑیوں سے روس کو پیش قدمی اورفوجی کارروائی کا جواز مل جائے گا۔