گھوٹکی میں استاد پر توہین مذہب کا الزام، توڑ پھوڑ اور مظاہرے جاری

لوگ متعلقہ اسکول میں توڑ پھور کر رہے ہیں

پاکستان کے صوبہ سندھ کے علاقے گھوٹکی میں مذہبی جذبات کو نقصان پہنچانے کا واقعہ سامنے آنے کے بعد ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کی گئی جبکہ مظاہرین نے کئی گھنٹے تک قومی شاہراہ کو بھی احتجاجاً بند رکھا۔

ایک غیر سرکاری اسکول میں زیر تعلیم طالب علم نے الزام عائد کیا ہے کہ اسکول پرنسپل نوتن مل نے پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کی ہے۔ جس کے بعد گوٹکی میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے۔

سوشل میڈیا پر یہ الزام سامنے آنے کے بعد صبح سے گھوٹکی میں مختلف مقامات پر لوگوں نے احتجاجی دھرنا دیا، ٹائر نذر آتش کیے جبکہ اس اسکول میں بھی توڑ پھوڑ کی گئی جہاں مبینہ طور پر گستاخی کا یہ واقعہ رونما ہوا تھا۔

اس دوران بعض افراد نے ایک مقامی مندر پر بھی حملہ کیا اور توڑ پھوڑ کی جس کے باعث وہاں مقیم ہندو برادری میں خوف اور تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔

واضح رہے کہ سندھ کے شمال مشرق میں واقع اس شہر میں کثیر تعداد میں ہندو مقیم ہیں جن میں سے بعض تجارت اور زمینداری کے پیشے سے بھی وابستہ ہیں۔ گھوٹکی میں ہندو برادری کے محلوں کی حفاظت کیلئے رینجرز کے اضافی دستے تعینات کئے گئے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے گھوٹکی میں ہندو برادری کے رہنما لاکھا رام کا کہنا ہے کہ یہاں کے رہنے والے ہندو اس واقعے کے بعد خوف کا شکار ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ واقعہ سامنے آنے کے بعد یہاں بسنے والے ہندو زیادہ تر گھروں کے اندر مقید ہیں جبکہ پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری علاقے میں تعینات ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ علاقے میں مندر اور بعض مورتیوں کو نقصان پہنچنے پر سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔

ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے افراد نے انتطامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے اور جن لوگوں نے واقعے کو بنیاد بنا کر شرانگیزی کی ہے انہیں کڑی سزا دی جائے تاکہ آئندہ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔

اُدھر جمعیت علمائے اسلام (ف) سندھ کے رہنما مولانا راشد محمود سومرو نے واقعے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ اپنے ایک بیان میں اُنہوں نے کہا ہے کہ اگر اس واقعے میں واقعی استاد ملوث ہے تو اس کے خلاف سخت کارروائی کرتے ہوئے اسے کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

اس واقعے کو بنیاد بنا کر گھوٹکی میں املاک کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ گھوٹکی میں اقلیتوں کی جان، مال، عزت و آبرو داؤ پر لگ چکی ہے جس کی نہ اسلام اجازت دیتا ہے اور نہ آئین پاکستان اجازت دیتا ہے۔

اُنہوں نے عوام سے اپیل کی کہ وہ قانون کو ہاتھ میں نہ لیں جبکہ انتظامیہ اس واقعے کی تحقیقات کرائے اور اقلیتوں کی کسی بھی املاک کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز کیا جائے۔

ادھر حالات خراب ہونے کے باعث شہر میں پولیس کی بھاری نفری طلب کر لی گئی ہے جبکہ پولیس کے ساتھ رینجرز نے بھی شہر میں گشت شروع کر دیا ہے۔ انتظامیہ کے مطابق واقعہ میں ملوث استاد کے خلاف مقدمہ درج کر کے تحقیقات شروع کر دی گئی ہے۔ ایڈیشنل آئی جی پولیس سکھر ریجن ڈاکٹر جمیل احمد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ملزم نوتن مل کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ شہر میں امن و امان کی صورتحال مکمل کنٹرول میں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پولیس واقعے کی غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کو ہر صورت ممکن بنائے گی تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کئے جا سکیں۔

دوسری جانب انسانی حقوق کمیشن نے بھی واقعے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ گھوٹکی میں دن بھر ہڑتال کے علاوہ مظاہرین نے قومی شاہراہ بھی بند رکھی جس کے باعث مختلف شہروں کو آنے اور جانے والے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم انتظامیہ سے مذاکرات کے بعد قومی شاہراہ پر ٹریفک کھول دیا گیا ہے۔