پلوامہ خودکش حملے کے بعد بھارت میں احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے۔ حملے کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی پر عوام اور ان کے حامیوں کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔ وزیر اعظم نے بھی کارروائی کی بات کہی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ سیکورٹی فورسز کو اس سلسلے میں کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔
کیا متبادل ہو سکتے ہیں؟
اس بارے میں جب ہم نے تجزیہ کاروں سے گفتگو کی تو انھوں نے بتایا کہ بھارت کے سامنے کم از تین متبادل ہیں جن پر وہ کارروائی کر سکتا ہے۔ یعنی سفارتی، اقتصادی اور فوجی۔ سب سے اہم متبادل فوجی ہے جس پر بہت غور و فکر اور محتاط انداز میں کارروائی کرنی ہوگی۔
سفارتی متبادل
سفارتی محاذ پر اس نے کوشش شروع کر دی ہے۔ لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شنکر پرساد وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’حکومت کے پاس پہلا متبادل سفارتی ہے جس کے تحت پاکستان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ، امریکہ اور چین اور دوسرے ملکوں نے اس حملے کی مذمت کی ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان دہشت گردی کو فروغ دیتا ہے‘‘۔
ان کے مطابق کئی محاذوں پر بات چیت چل رہی ہے اور ممکن ہے کہ سفارتی محاذ پر سندھ طاس آبی معاہدے کے سلسلے میں بھی بات ہو۔
اقتصادی متبادل
اس محاذ پر بھارت نے پہلے دن سے ہی کارروائی شروع کر دی ہے۔ شنکر پرساد کہتے ہیں کہ بھارت نے پاکستان سے انتہائی مراعات یافتہ تجارتی ملک کا درجہ واپس لے کر اس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اس نے پاکستان کو سپلائی کی جانے والی مصنوعات پر دو سو فیصد ڈیوٹی لگا دی ہے۔ اس سے واضح ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ کوئی تجارت کرنا نہیں چاہتا ہے۔ اس سے پاکستان کو بہت نقصان ہوگا۔
سینٹر فار اسٹڈیز آف ڈویلپنگ سوسائٹی ( سی ایس ڈی ایس) سے وابستہ پروفیسر ہلال احمد کے خیال میں بھارت کا یہ قدم پاکستان کے لیے نقصاندہ ہو سکتا ہے۔ لیکن اس سے اس کی معیشت پر کتنا اثر پڑے گا یہ دیکھنا ہو گا۔
فوجی متبادل
تیسرا متبادل فوجی ہے جو سب سے اہم ہے۔ آج جس تجزیہ کار سے بات کیجیے وہ اس کی بات ضرور کرتا ہے۔ لیکن یہ اتنا آسان بھی نہیں ہے۔ اس کے لیے بہت ہی غور و فکر کے ساتھ فیصلہ کرنا ہوگا۔
شنکر پرساد کے خیال میں فوج ہنگامی حالات کے لیے پلاننگ کر کے رکھتی ہے۔ مثال کے طور پر متبادل اے، بی، سی ہے۔ ہر متبادل کے فائدے اور نقصان ہوتے ہیں۔ ہر متبادل میں کچھ فیصد خطرہ بھی ہوتا ہے۔
حکومت کے کور گروپ میں جس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہ، قومی سلامتی کے مشیر، وزارت خارجہ و داخلہ کے نمائندے اور انٹلی جنس کے نمائندے ہوتے ہیں وہ سب بیٹھ کر اس پر تبادلہ خیال کرتے ہیں کہ موجودہ حالات میں بہتر متبادل کیا ہے۔
ان کے مطابق تمام متبادلوں پر کل سے غور ہو رہا ہے۔ جو بھی فیصلہ کیا جائے گا وہ سلامتی سے متعلق کابینہ کمیٹی کے سامنے رکھ دیا جائے گا جس پر فیصلہ کرنا حکومت کا کام ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی کارروائی نہیں ہوگی اور ایسا بھی نہیں ہے کہ مکمل جنگ چھڑ جائے۔ گی۔ تاہم دو ایک روز کے اندر کوئی نہ کوئی کارروائی ہو جائے گی۔
قلیل و طویل مدتی حکمت عملی
لیکن ہلال احمد کے خیال میں حکومت کو دو قسم کی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔ ایک قلیل مدتی اور دوسری طویل مدتی۔ قلیل مدتی حکمت عملی کے تحت اقدامات شروع ہو گئے ہیں۔ لیکن اسے اس پر غور کرنا ہوگا کہ علیحدگی پسندی کے رجحانات کیوں پیدا ہو رہے ہیں۔ حکومت کو اس کا پتہ لگا کر اس کو دور کرنے کی کوشش کرنی ہو گی۔
ای یو ایشیا نیوز کے انڈیا ایڈیٹر اور سینئر تجزیہ کار پشپ رنجن کہتے ہیں کہ بھارت نہ تو امریکہ کی مانند پاکستان کے اندر جا کر کارروائی کر سکتا ہے جیسا کہ اس نے بن لادن کے خلاف کی تھی اور نہ ہی اسرائیل کی مانند فلسطین کے خلاف کر سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بھارتی افواج کے پاس اس کی اہلیت نہیں ہے۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ بھارتی افواج کچھ کر سکتی ہیں تو ایل او سی کے پار جا کر عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکتی ہیں۔
ان کایہ بھی کہنا ہے کہ ہر عمل کا رد عمل ہوتا ہے۔ اگر بھارت بہت آگے بڑھ کر کارروائی کرے گا تو بین الاقوامی فورم پر اسے اس کا جواب بھی دینا ہو گا۔
سیاسی پہلو
پشپ رنجن یہ اندیشہ ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت اس واقعہ کا سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گی۔ اس وقت ملک میں جو ماحول ہے اس کو الیکشن میں کیش کرایا جائے گا۔
ان کے خیال میں جب بھی ایسا کوئی واقعہ ہو تا ہے تو سب سے پہلے مسلمانوں کو پاکستان سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کا ایک خاص مقصد ہوتا ہے۔ انھوں نے ملک کے مختلف علاقوں میں کشمیری طلبہ پر ہونے والے حملوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان کے تحفظ کا سوال کھڑا ہو گیا ہے۔
اس وقت ہلاک ہونے والے فوجیوں کی میتیں ان کے گھروں کو لے جائی جا رہی ہیں۔ جہاں بھی کوئی میت جاتی ہے تو اس کا جلوس نکالا جاتا ہے اور اس میں بی جے پی کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔
لیکن اسی کے ساتھ ان کے سیاسی مقاصد واضح ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر اناو میں جب ایسی ہی ایک میت پہنچی تو وہاں کے ایم پی بی جے پی کے سوامی ساکشی مہاراج نے جلوس کی گاڑی میں سواری کی اور مسکرا مسکرا کر لوگوں کے خیر مقدم کا جواب دیا۔ اس کے خلاف سوشل میڈیا پر مذمت کی جا رہی ہے۔
اسی طرح وزیر اعظم مودی نے حملے کے دوسرے روز جھانسی میں اور تیسرے روز مہاراشٹر میں ریلیوں سے خطاب کیا۔ انھوں نے حملے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی بات کہی اور اپنی حکومت کی مبینہ کامیابیوں کا شمار کراتے ہوئے ان سے آگے کے لیے آشیرواد بھی مانگا۔
بہت سے تجزیہ کار ذاتی گفتگو میں اس کا اعتراف کرتے ہیں کہ حکومت اس واقعہ سے انتخابی فائدہ اٹھانے کی ہر ممکن کوشش کرے گی۔