سپریم کورٹ آف پاکستان نے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اورداماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی ایون فیلڈ ریفرنس میں سزائیں بحال کیے جانے سے متعلق قومی احتساب بیورو (نیب) کی اپیل سماعت کے لیے منظور کرلی ہے۔
عدالت نے کیپٹن صفدرکی سزا معطلی کا معاملہ آئندہ سماعت تک مؤخر کردیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں غلطی کی ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بدھ کو نیب کی اپیل کی سماعت کی۔
دورانِ سماعت نیب کے وکیل جہانزیب بھروانہ نے مؤقف اختیار کیا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت نے 6 جولائی کو تینوں ملزمان کو سزا دی۔ حکمِ امتناع کی درخواستوں میں مرکزی مقدمے کے شواہد پر دلائل نہیں دیے جا سکتے، بلکہ حکمِ امتناع کے مقدمے میں مخصوص حالات کا ذکر ہوسکتا ہے۔
چیف جسٹس نے نیب کے وکیل سے پوچھا کہ ملزمان کو کس ریفرنس نمبر میں سزائیں ہوئیں؟ وکیل نیب نے بتایا کہ ریفرنس نمبر دو ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا سنائی گئی جو سترہ اکتوبر 2017ء کو دائر کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے نیب کی درخواست پر کیپٹن صفدر کو نوٹس جاری نہیں کیا اور کہا کہ ان کی سزا بہت کم ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا نیب کیپٹن صفدر کے خلاف درخواست پر بھی دلائل دے گا؟ انہیں تو صرف ایک سال کی سزا ہوئی ہے۔ کیپٹن صفدر سے متعلق فیصلے کو کیسے معطل کر دیں؟ نواز شریف اور مریم نواز کو نوٹس جاری کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کتنے صفحات پر فیصلہ دیا ہے؟ وہ حصہ پڑھیں جہاں مقدمے کے شواہد کا تذکرہ ہو۔ کیا پاکستان میں سزا معطلی میں 43 صفحات کے فیصلے کی کوئی مثال ہے؟ کسی سیانے کو کہیں شاید سزا معطلی پر اتنا لمبا فیصلہ ڈھونڈ دے۔
بعد ازاں کیس کی سماعت چھ نومبر تک ملتوی کردی گئی۔
گزشتہ روز چیف جسٹس نے نیب کی اپیل سماعت کے لیے مقرر کرکے بینچ تشکیل دیا تھا جو چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم اور جسٹس عمر عطا بندیال پر مشتمل تھا۔
لیکن طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے بعد ازاں جسٹس عمر کی جگہ جسٹس مظہر کو بینچ میں شامل کرلیا گیا تھا۔
نیب نے شریف خاندان کی سزا معطلی کے اسلام آباد ہائی کورٹ کے 19 ستمبر کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی جس میں فیصلہ کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
اپیل میں نیب نے مؤقف اختیار کیا ہے کہ ہائی کورٹ نے مقدمے کے شواہد کا درست جائزہ نہیں لیا۔ ہائی کورٹ نے اپیل کے ساتھ سزا معطلی کی درخواستیں سننے کا حکم دیا تھا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب پر مشتمل دو رکنی بینچ نے 19 ستمبر کو مختصر فیصلے میں نواز شریف، مریم اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی سزائیں معطل کرکے تینوں کی رہائی کا حکم دیا تھا۔
بعد ازاں چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال کی زیرِ صدارت اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ تینوں افراد کی سزا معطلی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ چیلنج کیا جائے گا۔
تین اکتوبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف اور ان کی بیٹی اور داماد کی سزا معطلی اور ضمانت پر رہائی کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ نیب نے ضمانت کی درخواستوں پر بحث کے لیے زیادہ سہارا پاناما فیصلے کا لیا۔ بادی النظر میں ملزمان کو دی گئی سزائیں زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتیں۔ احتساب عدالت نے اپارٹمنٹس خریداری میں مریم نواز کی نوازشریف کو معاونت کا حوالہ نہیں دیا۔ مریم نواز کی معاونت کے شواہد کا ذکر بھی نہیں۔
چھ جولائی کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو 10، مریم نواز کو 7 اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی تھی جس کے بعد تینوں کو گرفتار کرکے اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔