پشاور پریس کلب سمیت ملک کے بیشتر علاقوں میں پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکنوں نے اپنے ساتھیوں کی گرفتاری کے خلاف مظاہرے کئے۔
عوامی ورکر پارٹی کے صوبائی صدر اور تنظیم کے راہنما ایڈوکیٹ شہاب الدین خٹک نے کہا کہ کراچی میں گزشتہ ہفتے پی ٹی ایم کے حق میں ایک مظاہرہ ہوا جس میں شریک 12 افراد کو رينجرز نے اُٹھا لیا تھا جس میں 5 افراد کو بدھ کے روز جبکہ ایک کو آج صبح اور تین کو ابھی شام کے وقت رہا کردیا مگر اب بھی تین افراد ان کی حراست میں ہیں۔
انہوں نے کہا ابھی لاہور میں بھی دو درجن سے زائد کارکنان کو پولیس نے گرفتار کرلیا ہے۔
پشاور کے علاوہ بنوں، لورالائی، لاهور اور اسلام آباد میں بھی مظاہرے ہوئے۔
عبدالروف یوسفزئی نے کہا کہ ایک طرف تو مذاكرات کی بات ہوتی ہے اور دوسری طرف ہمارے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہے۔ یہ ڈبل گیم نہ کھیلا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ریاست ہمیں اپنی اولاد سمجھتی ہے یا نہیں تاکہ ہم بھی آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے اپنے حقوق کے لئے لائحہ عمل بنا سکے۔
Your browser doesn’t support HTML5
ایڈوکیٹ شہاب الدین خٹک نے کہا کہ ہمیں جتنا بھی دبانے کی کوشش کی جائے گی ہم اتنے ہی باہر نکلیں گے۔ ہم سوات کراچی اور ملک کے ہر حصے میں جلسے کرتے رہیں گے اور ہمیں اس سے کوئی نہیں روک سکتا۔
ڈاکٹر سید عالم محسود نے کہا کہ یہ احتجاج ریاستی ظلم کے خلاف ہیں ہم اس ریاستی جبر سے خوفزدہ ہونے والے نہیں ہے۔ ہم نے اس خوف کو ہمیشہ کے لئے ختم کردیا ہے۔
سوات جلسے کے حوالے سے سید عالم محسود نے کہا کہ پشتونوں کو ظلم کے اندھیروں سے نکالنے کے لئے اس جلسے میں عوام کی شرکت ضروری ہے تاکہ خفیہ ٹیلیفون کالز اور دھمکیوں کا مقابلہ کرسکے۔
انہوں نے میڈیا پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی میڈیا کے لئے ہم تو سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔ ہم صرف سوشل میڈیا کا ہی سہارا لیے ہوئے ہیں۔
پولیس نے جمعرات کے روز ’لاہور پریس کلب‘ کے سامنے احتجاج کرنے والے طالب علموں کو منتشر کرنے کے حربے استعمال کرتے ہوئے درجنوں کو کچھ دیر تک زیر حراست رکھا، جو کراچی میں گرفتار ہونے والے اپنے سرگرم ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔
ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کی کال منظور پشتین نے دی تھی، جو ابھرتے ہوئے نوجوان راہنما ملک کی پشتوں آبادی کے حقوق کو تسلیم کرانے کے حق میں آواز بلند کرکے چند ماہ قبل قومی سطح پر نمودار ہوئے ہیں؛ خاص طور پر اُن افراد کی آواز بن کر جو افغانستان سے ملحقہ سرحد پر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں رہتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق، بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مزمل خان نے، جو لاہور کی مشہور پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم اور ’پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم)‘ کے رُکن ہیں، بتایا کہ وہ پریس کلب گئے تھے جہاں اُنھوں نے پولیس کے ہاتھوں مظاہرہ کے لیے پہنچنے والوں کو گرفتار ہوتے دیکھا۔ اس لیے، وہ وہاں سے واپس ہوئے اور اپنے دیگر احباب کو بتایا کہ وہ وہاں کا رُخ نہ کریں۔
بقول اُن کے، ’’اُنھوں نے ہمارے کم از کم 30 دوستوں کو گرفتار کیا۔ اُنھوں نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں‘‘۔
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے باسط علی، جو طالب علم ہیں اور لاہور میں ’پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم‘ کے حامی ہیں، بتایا کہ وہ اپنے چار دوستوں کے ہمراہ پریس کلب گئے۔ اُنھوں نے بتایا کہ ان کی نظر دیگر مظاہرین پر نہیں پڑی، جب کہ وہاں دو درجن کے قریب پولیس والے تعینات تھے۔
بقول اُن کے ’’اُنھوں نے ہم سے پوچھا، تم کون ہو؟ کیا تم پٹھان (پشتون) ہو؟ ہم نے کہا ’ہاں‘۔ جس پر اُنھوں نے میرے دوستوں کو گرفتار کر لیا‘‘۔
علی دور کھڑے تھے۔ احتجاجی مظاہرے کی رپورٹنگ پر مامور ایک فرد نے اُن کا بازو پکڑا اور اپنے ساتھ لے گئے۔ اور یوں وہ گرفتار ہونے سے بچ گئے۔ بعدازاں، خان نے اس بات کی تصدیق کی کہ تمام افراد کو رہا کردیا گیا ہے۔
حیران کُن طور پر، لاہور میں احتجاج کی کال پر زیادہ لوگوں نے دھیان نہیں دھرا، جب کہ دیگر شہروں میں ایسا نہیں تھا۔ لاہور میں محض دو درجن کے لگ بھگ لوگ باہر نکلے، جب کہ پشتین کی گذشتہ چند ریلیوں میں ہزاروں افراد شریک ہوتے رہے ہیں۔
خیال رہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے ساتھ مذاكرات کے لئے حکومت کی جانب سے ایک روایتی پختون جرگہ تشکیل دیا گیا ہے جس میں ابتدائی بات چیت بدھ کے روز خیبر ایجنسی کی تحصيل جمرود میں ممبر قومی اسمبلی شاہ جہ گل کے حجرے میں ہوئی۔
جرگے میں پشتون تحفظ موومنٹ کی طرف سے تحریک کے بانی منظور پشتین اور پی ٹی ایم کے رکن محسن داوڑ شامل ہوئے جبکہ وفاقی وزیر غالب خان وزیر ،خیبر پختو نخوا کے وزیر اطلاعات شاہ فرمان ،ضلع شانگلہ سے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر عباد شامل تھے۔
جرگے کے سامنے پشتون تحفظ موومنٹ نے اپنے مطالبات دوہراتے ہوئے منظور پشتین نے ملک بھر میں پھیلے ہوئے اپنے راہنماؤں سے صلاح مشورے کا وقت مانگ لیا۔ جس کے بعد وہ الحاج شاہ گل کے ذریعے جرگے کو مطلع کریں گے۔
تاہم اُنہوں نے واضح کیا کہ پی ٹی ایم کے خلاف پراپیگنڈہ مہم اور تحریک کے خلاف مقدمات کے اندراج اور گرفتاریوں کے جاری رہتے ہوئے مذاكرات نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ مذاكرات کے لئے ماحول کو ساز گار بنانا حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔
پشتون تحفظ موومنٹ کے ایک کارکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ کراچی اور لاہور میں گرفتاریوں کے بعد تنظیم میں کچھ لوگ مذاکرات پر سوال اُٹھا رہے ہیں جبکہ کئی راہنما بات چیت ختم کرنے کی بھی بات کر رہے ہیں مگر ابھی تک منظور پشتین نے مذاكرات ختم کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔