توقع ہے کہ اس ملاقات میں دونوں ملکوں کے درمیان مختلف امور بالخصوص افغانستان کی صورتحال اور دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں میں پاکستان کے کردار پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگست میں اپنی نئی جنوبی ایشیا پالیسی میں پاکستان میں عسکریت پسند گروپوں بالخصوص افغان طالبان گروپ حقانی نیٹ ورک کی مبینہ محفوظ پناہ گاہوں کے خلاف واضح الفاظ میں انتباہ جاری کیا تھا جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی در آئی تھی۔ یہاں تک کہ امریکہ کی قائم مقام معاون وزیرخارجہ برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز کے دورہ پاکستان کو اسلام آباد نے کہ یہ کہہ کر ملتوی کر دیا تھا کہ وہ فی الوقت امریکی عہدیدار کے ساتھ ملاقات کے لیے تیار نہیں ہے اور اس کے لیے وقت کا ازسر نو تعین بعد میں کیا جائے گا۔
مبصرین نے اسلام آباد کے اس اقدام کو صدر ٹرمپ کے پاکستان پر دباؤ کے خلاف رد عمل سے تعبیر کیا تھا۔ پاکستان نے اس کے بعد سے یہ موقف اختیار کیا کہ افغانستان میں کامیابی نہ ملنے پر پاکستان کو قربانی کا بکرا نہ بنایا جائے۔ اس کے بعد اگرچہ اقوام متحدہ کے اجلاس کے موقع پر پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور امریکہ کے نائب صدر مائیک پنس کی باضابطہ سائیڈ لائن ملاقات ہوئی اور وزیراعظم کے بقول ایک تقریب میں صدر ٹرمپ کے ساتھ بھی مختصر مگر با مقصد غیر رسمی گفتگو ہوئی، دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کی سطح پر پہلا باضابطہ رابطہ ہو گا۔
واشنگٹن میں تجزیہ کاروں نے گزشتہ روز وائس آف امریکہ کے ساتھ گفتگو میں کہا تھا کہ پاکستان اور امریکہ ایک دوسرے کے لیے بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ امریکہ اس خطے میں بالخصوص افغانستان کے مسئلے کے حل میں پاکستان کے تعاون سے محروم نہیں ہونا چاہیے گا اور نہ پاکستان مشکل حالات میں امریکہ جیسے اتحادی سے منہ پھیر سکتا ہے۔ تجزیہ کاروں کے بقول دونوں ملک اعتماد کی بحالی کے لیے ’’آوٹ آف باکس‘‘ حکمت عملی اختیار کر سکتے ہیں۔
وزیر خارجہ خواجہ آصف اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے بعد سے امریکہ میں ہی ہیں۔ نیویارک میں اقوام متحدہ میں منسٹیریل انگیجمنٹس، تھنک ٹینکس اور کمیونٹی سے خطاب کے بعد وہ آئندہ ہفتے واشنگٹن پہنچ رہے ہیں۔ جہاں ذرائع کے مطابق ان کی امریکی ہم منصب ریکس ٹلرسن کے ساتھ ملاقات ہو گی۔
غالب امکان ہے کہ یہ ملاقات 5 اکتوبر کو ہو گی جب وہ واشنگٹن میں قائم تھنک ٹینک یونائیٹڈ انسٹی ٹیوٹ آف پیس سے بھی خطاب کریں گے۔ واشنگٹن میں دورے کے دوران وزیر خارجہ امریکی اور پاکستانی میڈیا کے ساتھ بھی گفتگو کریں گے اور امریکی تحفظات پر پاکستان کی پوزیشن واضح کریں گے۔