بلوچستان: سرکاری رپورٹ میں خودکش حملوں اور مسخ شدہ لاشوں کا ذکر نہیں

8 اگست کو سول اسپتال میں وکلاء پر خودکش حملہ ہوا تھا جس میں 55 وکلاء سمیت 70 سے زائد افراد ہلاک ہوئے تھے

سن 2016 میں بلوچستان میں گوادر بندرگاہ کی تعمیر مکمل ہوئی اور یہاں سے تجارتی سر گرمیوں کا آغاز ہوا، چین کے تعاون سے پاک چین اقتصادی راہداری کے کئی منصوبوں کی بنیاد رکھی گئی۔

لیکن باقی ملک کی طرح دہشت گردی اس صوبے میں بھی ایک بڑا مسئلہ بنی رہی۔ اس سال صوبے میں داعش نے بھی حملے کیے اور تیں انتہائی خون زیر واقعات کی ذمہ داری قبول کی، بعض ناقدین ان سنگین واقعات کے بعد خطے میں گیم چینجر کی علامت سمجھے جانے والے اقتصادی راہداری منصوبے کے بارے میں اب خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔

2016 میں جو اہم واقعات ہوئے ہیں ان میں صوبے کے مختلف علاقوں میں 6 خودکش حملے ہیں۔

پہلا حملہ جنوری میں کوئٹہ کے نواحی علاقے میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے والے سنٹر کے باہر تعینات فرنٹیر کو ر اور پولیس اہلکاروں پر ہوا جس میں سیکورٹی اداروں کے 15 جوان ہلاک ہوگئے تھے۔

دوسرا حملہ اسی مہینے میں ژوب میں حساس علاقے میں ایک سیکورٹی چیک پوسٹ پر ہوا جس میں چند اہلکار زخمی ہوئے۔

تیسرا حملہ فروری میں ایف سی اہلکاروں پر کو ئٹہ میں ہوا جس میں فرنٹیرکور کے 12 جوانوں سمیت 15 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

8 اگست کو سول اسپتال میں وکلاءپر خودکش حملہ ہوا جس میں 55 وکلاءسمیت 70 سے زائد افراد ، 24 اکتوبر کو کو ئٹہ میں پولیس کے تر بیتی مر کز پر حملے میں 60 سے زائد اور نومبر میں ضلع خضدار کے علاقے شاہ نورانی میں ایک مزار پرحملے میں 50 افراد جان کی بازی ہار گئے تھے۔

ان میں سے بیشتر واقعات کی ذمہ داری داعش کی ایک ذیلی تنظیم کالعدم لشکر جھنگوی العالمی نے قبول کی تھی ۔

مئی 2016میں اس جنوب مغر بی صوبے کی تاریخ میں پہلی بار ڈرون حملہ ہوا جس میں افغان طالبان کے سر براہ ملا اختر منصور نوشکی کے قریب مارے گئے۔اس کے علاوہ صوبائی وزیر داخلہ میر سر فراز بگٹی بھی ضلع ڈیرہ بگٹی میں ایک بم حملے میں بال بال بچ گئے تھے ۔

دوسری طر ف صوبائی وزارت داخلہ کے سالانہ سرکاری رپورٹ میں 268 واقعات کو شامل کیا گیا جس میں پولیس پر 8 ،فرنٹیر کور پر 9 ،اور لیویز پر 12 حملے بتائے گئے ہیں ان حملوں میں پولیس کے 25 ،ا یف سی کے 30 اور لیویز کے 11 جوانوں کی ہلاکت بتائی گئی ہے،فر قہ ورانہ تشدد کے دو واقعات میں پانچ اور دیگر واقعات میں 167 افراد کے ہلاک ہونے کے بارے میں بتایا گیا ہے۔

تعجب کی بات یہ ہے وزارت داخلہ کی رپورٹ میں خودکش حملوں اور ان سے ہونے والی ہلاکتوں ،صوبائی وزیر داخلہ میر سر فراز بگٹی پر ہونے والے حملے، صوبے کے مختلف علاقوں سے ملنے والی 70 مسخ شدہ لاشوں اور لاپتہ ہونے والے نوجوان کا کوئی ذکر نہیں ہے،اگر چہ مقامی ذرائع ابلاغ میں تسلسل کے ساتھ لاشیں ملنے اور نوجوانوں کے لاپتہ ہونے کی خبر یں شائع ہو تی رہتی ہیں۔

عام شہری 2016 میں پیش آنے والے ان واقعات پر دکھی ہیں لیکن 2017 کےلئےپرامید ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی کے طالب علم محمد غضنفر کا کہنا ہے کہ

“2016 میں صوبے کے لوگوں نے کافی دُکھ سہے ہیں لیکن 2017 سے مجھے اچھی اُمید یں ہیں انشاءاللہ بلوچستان پر امن ہوگاروزگار کے نئے مواقوں کےباعث بے روزگاری کم ہو گی اور اس کا مثبت اثر صوبے میں امن وامان کی صورتحال پر بھی ہوگا ۔”

محمد یونس ٹھیکیداری کا کام کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ “ رواں سال بلوچستان پر بہت بھاری گزرا ہے کئی خون ریز واقعات ہوئے بلوچستان میں بہت زیادہ تباہی اور انسانی جانوں کا نقصان ہوا اُمید ہے کہ 2017خوشیوں اور کامیابیوں کا سال ہو گا اور ملک پرامن رہےگا۔


2016 کے دوران اس پسماندہ صوبے کے راستے چین سے آنے والا 50 سے زائد مال بر دار ٹرکوں کا قافلہ سخت سکیورٹی میں گیارہ سو سے زائد کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے گوادر پہنچا جس سے بلوچستان کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ان یہ صوبہ چین کے صوبے سنکیانگ سے جڑ گیا ہے۔

قدرتی وسائل سے مالامال اس صوبے میں 2016 کے دوران جہاں ایک جانب تشدد کا سلسلہ جاری رہا ، وہاں چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کے منصوبوں پر عملدرامد میں تیز ی بھی پیدا ہوئی ہے ان سر گرمیوں کی بدولت لوگوں کو روزگار ملنے سے دہشت گردی کی حوصلہ شکنی کی توقعات کی جارہی ہیں۔ عام لوگ بھی خوشحال مستقبل کی امیدیں لیے 2017 کا انتظار کر رہے ہیں۔