پنجاب آپریشن: حکومت کتنی سنجیدہ ہے؟

Your browser doesn’t support HTML5

انڈی پنڈنس ایوینو - پنجاب آپریشن کہاں تک جائے گا؟

پنجاب پولیس کی ترجمان نبیلہ عضنفر، سینیٹر ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل عبد القیوم، سینئیر صحافی جمشید رضوانی، تجزیہ کار معید یوسف اور مائیکل کوگل میں کی اردو وی او اے کے پروگرام انڈی پنڈنس ایونیو میں گفتگو

واشنگٹن کے ووڈرولسن سینٹر کے جنوبی اور سینٹرل ایشیا پروگرام کے مائیکل کوگل مین کا کہنا ہے کہ پنجاب میں دہشت گردوں کے خلاف ہیلی کاپٹروں کا استعمال بہت بڑی بات ہے۔

وہ اردو وی او اے کے پروگرام انڈیپنڈنس ایونیو میں بات کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب آپریشن میں پولیس اور فوج کے درمیان کتنا تعاون ہو رہا ہے، یہ واضح نہیں، لیکن یہ واضح ہے کہ پولیس کو بہتر ہتھیاروں اور صلاحیت میں اضافے کی ضرورت ہے۔

ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ راجن پور میں گینگز کے خلاف آپریشن کے لیے انہیں گاؤں والوں سے کشتیاں ادھار لینی پڑیں۔

پنجاب پولیس کی ترجمان نبیلہ غضنفر کا کہنا تھا کہ یہ آپریشن پچاس کلو میٹر کے علاقے میں ہو رہا ہے، اس جزیرے کا رقبہ آٹھ کلومیٹر ہے۔ کیونکہ یہ جزیرہ دریائے سندھ کے درمیان واقع ہے اس لیے اس آپریشن کی نوعیت غیر معمولی ہے اور پنجاب پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اس میں شریک ہیں اور اُن کے بقول ایک حکمت عملی کے ساتھ اس آپریشن کو شروع کیا گیا ہے۔

نبیلہ غضنفر نے کہا کہ اب میں پاک فوج کے جوان بھی شامل ہوئے ہیں۔ اس وقت ہماری ترجیح یرغمالیوں کی محفوظ رہائی ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ اگر پنجاب پولیس حکمت عملی کے ساتھ آپریشن کرنے گئی تھی تو اتنا جانی نقصان کیسے ہو گیا ؟ نبیلہ غضنفر کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں جہاں بھی اس قسم کے آپریشن ہوتے ہیں، ان میں ایسے واقعات ہوتے ہیں۔

نبیلہ غضنفر کا کہنا تھا کہ یہ علاقہ دریا میں بہت اونچائی پر ہے۔ جب دریا میں کوئی نقل و حمل ہوتی ہے تو ڈاکووں کو دور سے نظر آ جاتا ہے کہ کس طرف سے موومنٹ ہو رہی ہے۔

انھوں نے کہا کہ آئی جی پنجاب نے راجن پور میں ایک پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا چھوٹو گینگ کے خلاف آپریشن اسی آپریشن کا حصہ ہے جس کا اعلان ستائس مارچ کو لاہور کے گلشن اقبال پارک میں دہشت گردی کے واقعے کے بعد کیا گیا تھا؟ تو نبیلہ کا کہنا تھا کہ لاہور دہشت گردی کے بعد سے پورے پنجاب میں انٹیلی جنس پر مبنی آپریشنز جاری ہیں۔ موجودہ آپریشن کے لیے بھی کافی دیر پہلے سے تیاری کی جارہی تھی۔

سینئیر صحافی اور پاکستانی نیوز چینل ٹوینٹی فور کے بیورو چیف جمشید رضوانی کا کہنا تھا کہ کچے کا علاقہ پچھلے پندرہ سال سے خبروں میں ہے۔ اس کے دائیں طرف ضلع راجن پور اور بائیں طرف رحیم یار خان ہے۔

یہ تقریبا ایک سو دس کلومیٹر کا علاقہ ہے جہاں دریا کبھی پچیس سے تیس کلومیٹر چوڑا ہو جاتا ہے اور کبھی صرف پانچ کلومیٹر رہ جاتا ہے۔ درمیان میں جو جزیرے ہیں ، وہ مجرموں کی جنت بنے ہوئے ہیں۔ یہاں اغوا برائے تاوان کے مجرم پناہ لیتے ہیں ۔ اور پاکستان بھر سے جو اہم کاروباری شخصیات اغوا ہوتی ہیں، ان کو یہیں رکھا جاتا ہے۔ یہ جزیروں میں بٹا ہوا مشکل علاقہ ہے ۔ جہاں عام آدمی کی رسائی نہیں ہے۔ اس علاقے کی اپنی زرعی معیشت کروڑوں اربوں میں جاتی ہے ۔کپاس، گندم، سبزیاں ہر طرح کی فصلیں یہاں اگائی جاتی ہیں۔ روجھان اور کچے کے علاقے میں پناہ لینے والے مجرموں کو مبینہ طور پر سیاسی عناصر سے سرپرستی ملتی رہی ہے۔

یہ علاقہ جب گدو بیراج کی طرف جاتا ہے تو سندھ کا ضلع کشمور شروع ہو جاتا ہے۔

کشمور کے سیاسی خاندانوں پر بھی الزام ہے کہ وہ اس علاقے میں موجود جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔

جمشید رضوانی کا کہنا تھا کہ راجن پور، کشمور اور رحیم یار خان کے تین اضلاع پر کبھی توجہ نہیں دی گئی۔ پچھلے تین چار سالوں میں کچھ آپریشن ہوئے لیکن کبھی اس علاقے کو ان عناصر سے پاک کرنے کی بھرپور کوشش نہیں کی گئی۔

موجودہ آپریشن میں پولیس کے جتنے جوان شریک ہیں ، وہ دس دن سے علاقے میں موجود تھے ، تھکے ہوئے تھے ، اور یہ بات ملحوظ رکھے بغیر آپریشن کا فوری اور جذباتی فیصلہ کیا ’’یہ دیکھے بغیر کہ اس کا رد عمل کیا ہو گا ۔ ایلیٹ فورس کے اہلکاروں سے پوچھا گیا کہ کون کون اندر جانا چاہتا ہے ۔۔ اور مزاحمت کاروں کو پتہ تھا کہ کون کہاں سے داخل ہوگا۔ تو منصوبہ بندی کی کمی کی وجہ سے بھی پولیس کا جانی نقصان ہوا ہے۔‘‘

جمشید رضوانی نے اتفا ق کیا کہ اس علاقے کی حالیہ اہمیت کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ پاک چین اقتصادی راہداری کے مغربی روٹ کی گزرگاہ بننے والا ہے۔ دوسرے نیشنل ایکشن پلین کے بعد سوچ یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے جو علاقے بھی چیلنج بنیں گے، وہاں کارروائی کی جائے گی اور مجرمانہ عناصر کا صفایا کیا جائے گا۔ اس علاقے میں جس قسم کی مزاحمت دیکھنے میں آئی ہے ، اس سے پہلے بھی کہا جا رہا تھا کہ کچھ علاقے نو گو ایریاز ہیں۔

خیال ہے کہ یہاں جرائم پیشہ افراد، کالعدم تنظیموں کے ارکان، وزیرستان اور بلوچستان سے فرار ہونے والے عناصر بھی پناہ لیتے رہے ہیں۔ آصف چھوٹو کا نام القاعدہ کے حوالے سے سامنے آیا تھا، جن کے بارے میں یہ سنا گیا تھا کہ وہ اس علاقے میں کافی عرصہ چھپے رہے ہیں۔ تو اس علاقے کی اہمیت ایک تو لاء اینڈ آرڈر کے حوالے سے ہے اور دوسرے اس روٹ کو محفوظ کرنا اور بنانے کے حوالے سے ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ اگر ایک ڈاکو گینگ کے خلاف کارروائی میں اتنی مشکل پیش آئی ہے تو کالعدم تنظیموں کے خلاف کیا ہو گا؟ جمشید رضوانی کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب میں نیشنل ایکشن پلان سے پہلے بھی نسبتا سنجیدہ کارروائیاں نظر آرہی ہیں کہ کالعدم تنظیموں کے لوگوں کو کسی طرح قابو کیا جائے۔

کالعدم تنظیموں کے بہت سے لوگ پولیس مقابلوں میں مارے بھی گئے ۔ روجھان وہی علاقہ ہے جہاں مولانا عبد العزیز کے بھائی مولانا عبدالرشید سپرد خاک ہیں ۔

واشنگٹن کے تھنک ٹینک یو ایس آئی پی کے جنوبی ایشیا سینٹر کے تجزیہ کار معید یوسف کا کہنا تھا کہ یہ بات سب کے علم میں تھی کہ پنجاب میں ایسا آپریشن شروع ہو گا تو صرف پولیس اسے انجام تک نہیں پہنچا سکے گی۔ جلد رینجرز اور فوج کو اس میں شامل ہونا پڑے گا۔ کیونکہ پولیس کے پاس وہ تربیت اور وسائل نہیں ہے جو ایسے مقابلوں کے لیے درکار ہیں۔

پولیس کے اپنے مسائل بھی ہیں لیکن پولیس کو پاکستان میں تاریخی طور پر سیاسی انداز میں بھی استعمال کیا جاتا رہا ہے ۔ تاہم ہیلی کاپٹروں کا استعمال جنوبی پنجاب کے شہروں میں نہیں ایسے علاقوں میں کیا جا رہا ہے، جو الگ الگ جزیرے ہیں، جہاں یہ مجرم پناہ لیتے ہیں۔ وہاں ائیر پاور آپ اس لیے استعمال کر سکتے ہیں کہ وہاں بے گناہ لوگوں کے مارے جانے کا اندیشہ نہیں، لیکن یہ حکمت عملی جنوبی پنجاب کے باقی علاقوں میں استعمال نہیں کی جا سکتی۔ وہاں پولیس اور رینجرز کو ہی کام کرنا پڑے گا۔ پولیس کے پاس مقامی انٹیلی جنس رینجرز اور فوج سے کہیں زیادہ ہے ۔ مگر بد قسمتی سے کارروائی کی صلاحیت اس طرح نہیں ہے۔

تاہم معید یوسف کا کہنا تھا کہ آپریشن کے پہلے مرحلے پر ہی پولیس کی کارکردگی میں اتنی خامیاں سامنے آئی ہیں کہ یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ۔ یہ کارروائی جنوبی پنجاب کے اس علاقے سے سب سے پہلے شروع اس لیے ہوئی کہ ایسے شواہد سامنے آئے ہیں کہ مجرمانہ گینگ اور دہشت گردوں کے تعلقات ہیں۔

اغوا برائے تاوان کے واقعات سے کمایا ہوا نفع دہشت گردوں کی مالی معاونت میں استعمال ہوتا ہے ۔ جہاں تک سوال ہے،کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کا۔ اس کا معاملہ ابھی شروع نہیں ہوا۔ اگر ہیلی کاپٹرز کے استعمال سے مجرموں کے اہل خانہ کو نقصان پہنچا تو اس کا کوئی ردعمل ہو گا؟ اس سوال پر معید یوسف کا کہنا تھا کہ اس بارے میں اس آپریشن کے منصوبہ ساز زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ وہ عام شہریوں کے جانی نقصان کو کیسے روکیں گے، ردعمل تویقینا سامنے آئے گا۔

شمالی وزیرستان آپریشن کے بعد ردعمل آیا لیکن ریاست نے اس آپریشن سے ملک میں دہشت گردی کے کئی واقعات روکے بھی ہیں ۔ پنجاب میں اتنا عرصہ آپریشن نہ کرنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ پاکستان کی سب سے زیادہ آبادی پنجاب میں رہتی ہے۔ حکومت اس مرتبہ دہشت گردوں کے پیچھے جانے میں کتنی سنجیدہ ہے؟ معید یوسف کا کہنا تھا کہ مجرمانہ گروہوں سے رابطے بدقسمتی سے پاکستان کے تمام صوبوں کی سیاست کاحصہ بن گئے ہیں۔ لیکن آپریشن کے خلاف اس قسم کی سیاسی مزاحمت کو ایک طرف کر دیا گیا ہے ۔جہاں تک تعلق ہے کہ کچھ کالعدم تنظیموں کو مسلم لیگ نواز کے کچھ عناصر کی پشت پناہی حاصل ہے، وہ ایک مختلف قسم کی پشت پناہی ہے ، اس کا تعلق دہشت گردی سے ضروری نہیں کہ ہو۔ اس کا تعلق ووٹ بینک سے ہے۔

اس پر یہ سوال ہو سکتا ہے کہ حکومت واقعی فوج کے ساتھ مل کر یہ کام کرنا چاہ رہی ہے یا نہیں ۔ دوسری طرف ایسے سوال بھی ہیں کہ کیا کچھ ایسے گروپ بھی ہیں، جن کو فوج ٹارگٹ نہیں کرنا چاہتی۔ اس بحث کا کوئی نتیجہ ابھی نکلتا نظر نہیں آرہا ۔ یہ آپریشن آگے کہاں تک بڑھے گا، کن تنظیموں کا ٹارگٹ کرے گا، اس سے ہم یہ نتیجہ نکال سکیں گے کہ واقعی پنجاب کو دہشت گردوں سے صاف کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے یا ٹیکٹیکل فائر فائٹنگ اور چوٹ پر معمولی بینڈ ایڈ لگا کر معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔

سینیٹر ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل ملک قیوم کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اس بار حکومت نے فیصلہ کیا ہوا ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے گا۔

پنجاب میں پچھلے کچھ عرصے میں چھ ہزار پانچ سو انٹیلی جنس آپریشنز ہو چکے ہیں ۔ اور بہت سی گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں۔ کچے کا علاقہ روایتی طور پر ڈاکووں کا علاقہ ہے۔ اور یہ عام ڈاکو نہیں گینگ ہیں ۔ ان کے خلاف آپریشن صرف پولیس کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس لیے ہیلی کاپٹرز کا استعمال کرنا ضروری تھا ۔ان کا کہنا تھا کہ چھوٹو گینگ دو ہزار ایک میں اپنے قائم ہونے کے کافی عرصے تک اتنا طاقتور نہیں تھا۔ انہوں نے گیارہ ستمبر کے بعد زور پکڑا ، جب پاکستان کی طویل مغربی سرحد غیر محفوظ تھی ۔ یہ گینگز اپنی جگہیں بدلتے رہے ہیں ۔ ابھی ان کی چھانٹی ہو رہی ہے۔ یہ ایریا جلد کلئیر ہو جائے گا۔

پاکستان کے چاروں صوبوں میں صورتحال ہماری سیکیورٹی ایجنسیز ، انٹیلی جنس ایجنسیز اور حکومت کے کنٹرول میں ہے ۔ہم سلیپر سیلز کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں ، خیبر پختون خواہ میں ، بلوچستان میں صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ اس سوال کے جواب میں کہ کیا ان کالعدم تنظیموں کے خلاف بھی کارروائی ہوگی، جن کے ہیڈ کوارٹر جنوبی پنجاب میں ہیں؟ سینیٹر ریٹائرڈ لیفٹننٹ جنرل ملک قیوم کا کہنا تھا کہ اایک خاموش انٹیلی جنس آپریشن کے ذریعے یہ پتہ لگا یا جا رہا ہے کہ کون کیا کر رہا ہے ۔ اربو ں ڈالر کے فنڈ منجمد کیے گئے ہیں ۔ نو کروڑ سے زائد فون سمیں بند کی گئی ہیں ۔ سلیپر سیلز ٹوٹ چکے ہیں ، ان کے روابط کو نقصان پہنچا ہے ۔۔پولیس کو تربیت اور وسائل مہیا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور انہیں جہاں جہاں مدد کی ضرورت ہے، وہ ضرور فراہم کی جائے گی۔

پنجاب ، سندھ، بلوچستان یا خیبر پختون خواہ ، جہاں بھی دہشت گردوں کا کوئی گڑھ ہوگا، چاہے وہ اسلام آباد یا لاہور میں ہو، اسے ختم کیا جائے گا ۔ لیکن اس سب معاملے کو بصیرت سے ہینڈل کرنا ہے ۔ آنکھیں بند کرکے آبادی پر فائرنگ کرکے دہشت گردوں کو ختم نہیں کر سکتے ۔ ان میں کئی صرف گمراہ ہوتے ہیں ، لیکن اصل مجرم صرف چند لوگ ہوتے ہیں ۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کو گرفتار کرکے عدالت میں لایا جائے ، ان پر مقدمہ چلے اور انہیں سزا ملے ۔ یہی ہماری پالیسی ہے کہ ہم تمام غلط عناصر کے خلاف کارروائی کریں ۔ ’’ہم کچھ کو GOOD اور کچھ کو BAD نہیں قرار دے سکتے ۔‘‘

معید یوسف کا کہنا تھا کہ جنوبی پنجاب کے موجودہ آپریشن جیسا آپریشن پنجاب کے چند علاقوں میں ہی ممکن ہے ، باقی جگہوں پر انٹیلیجنس اور دوسرے ذرائع ہی اختیار کرنے ہونگے ۔۔لیکن پاکستان میں جانے پہچانے دہشت گرد وں کے عدالتوں سے بری ہونے کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے ۔ جب کریمنل جسٹس کا نظام کام نہیں کرتا ، تو پولیس مقابلے ہوتے ہیں اور بات وہیں کی وہیں رہ جاتی ہے ۔