چاول دنیا کی کئی قوموں کا من بھاتا کھانا ہے، تاہم ماہرین کا کہنا ہےکہ اس کا مسلسل استعمال طبی لحاظ سے سود مند نہیں ہے،کیونکہ چاول میں انتہائی زہریلی دھات آرسینک (سنکھیا )کی موجودگی معمول سےکافی زیادہ پائی جاتی ہے۔
برطانوی ماہرین نےتجویز کیا ہےکہ اگرچاول پکانے کے روایتی طریقے کو تبدیل کردیا جائےاورچاولوں کو پتیلی کےبجائے کافی فلٹر کرنے والی مشین یا کیتلی میں ابالا جائے توچاولوں میں سے زہریلےمادے آرسینک کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے ۔
'کوئنز یونیورسٹی آف بیلفاسٹ 'سے منسلک تحقیق دانوں نےدعوی کیا ہے کہ کثرت سے چاول کھانے والوں میں سنکھیا کی خطرناک سطح اجاگر ہوئی ہے،جس سے کینسر لاحق ہونےکا خطرہ بڑھ جاتا ہے ۔
ماہرین کے مطابق ، آرسینک کی مقدار والے چاول کثرت سے کھانے سےکئی طرح کے صحت کےمسائل مثلا دل کی بیماریاں ،ذیا بیطس ،اعصابی نظام کی کمزوری کے علاوہ پھپھڑے اور مثانے کےکینسر لاحق ہونے کے خطرات میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ آرسینک کی زیادہ مقدار دھیرے دھیرے ہلاکت کا باعث بن سکتی ہے ۔
'پلوس ون' نامی تحقیقی رسالے میں شائع ہونے والی تفصیلات میں ماہرین نے بتایا ہے،کہ اگر چاول کو کافی کی مشین میں فلٹر کے حصے میں ڈال کر بھاپ پر پکایا جائے، تو اس طرح چاولوں میں سے 85 فیصد آرسینک کاخاتمہ کیا جاسکتا ہے۔
کوئنز انسٹیٹیوٹ فار گلوبل فوڈ سیکیورٹی میں شعبہ زراعت کے پروفیسر اینڈی میہارگ نےکہا نتائج غذا سے آرسینک مادوں کو کم کرنےکےفوری حل کےحوالے سے ایک اہم پیش رفت ہے ۔
انھوں نے کہا کہ چاول کو پتیلی میں ابال کر خشک کرنے سے چاولوں میں سے سنکھیا کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا ہے،کیونکہ جو بھی آرسینک پانی کے ذریعے بہایا جاتا ہے، وہ خشک چاولوں میں دوبارہ جذب ہوجاتا ہے ۔
پروفیسر میہارگ کے مطابق چاول زہریلے کیمیائی عناصر پر مشتعمل ہوتا ہےانھوں نے کہا کہ چاول واحد بڑی فصل ہےجو پانی والےکھیتوں میں کاشت کی جاتی ہےاس کا مطلب یہ ہے کہ چاول کی فصل زیر زمین پانی میں موجود غیر نامیاتی آرسینک کی بھاری مقدارکو جذب کرلیتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہےکہ چاول میں عام طور پر کھانے کی دیگر اشیاء کے مقابلے میں سنکھیا کی مقدار دس گنا زیادہ ہوتی ہے ۔
روزنامہ ٹیلی گراف کے مطابق ،پروفیسر میہارگ نے بتایا کہ ہماری تحقیق میں ہم نے نئی سوچ کے ساتھ چاول پکانے کے طریقہ کو دیکھا ہے اور چاولوں میں سے آرسینک مادے کے خاتمے کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں پتا چلا ہے کہ کافی کی الیکٹرونک کیتلی کا استعمال کرتے ہوئے،جس میں ابلتے ہوئے پانی کا مسلسل بہاؤ چاولوں میں سے گزرتا ہے،چاولوں میں سے سنکھیا کےخاتمے کو بڑھایا جاسکتا ہے ۔
کافی میکردوسرے طریقوں کےمقابلے میں اعلی درجہ حرارت کی بنیاد پر کشید کا طریقہ ہے۔ ایک کافی کی مشین کے نچلے حصے میں ایک چھوٹا چیمبر ہوتا ہے جو کہ ہیٹ کے ذریعے سے زیادہ قریب ہوتا ہے، جبکہ کیتلی کے پانی کے چمبر میں پانی کی مطلوبہ مقدار ڈالی جاتی ہے اور کافی کی مطلوبہ مقدار کو اوپر کی چھلنی میں ڈالا جاتا ہے ،اس دوران کیتلی میں پانی مسلسل ابلتا رہتا ہے ۔
پروفیسر میہارگ کا کہنا تھا کہ کافی میکر میں چاول پکانے سے چاولوں میں سے آرسینک کے خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے ۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں چاول کھانے کے معاملے پر توجہ دینی چاہیئے ،اگر آپ ہفتے میں دو سے تین بار چاول کھاتے ہیں، تو یہ ٹھیک ہے ،لیکن اگرآپ ایک دن میں دو یا تین بار چاول کھاتے ہیں تو آپ کو فکر مند ہونے کی ضرورت ہے ۔
انھوں نے کہا کہ جنوبی ایشیائی ثقافتوں اورگلوٹین سے حساسیت رکھنے والے افراد اور سبزی کھانے والے لوگ چاول کثرت سے کھاتے ہیں لہذا یہ لوگ زیادہ بڑے خطرے میں ہیں ۔
پروفیسر اینڈی میہارگ نے کہا کہ کافی کی مشین 10منٹ کے سائیکل پر چلتی ہے، لیکن ہمارے تجربے میں ہم نے دیکھا ہے کہ کافی میکر میں سفید چاول پکانے کے لیے 20 منٹ کا وقت چاہیئے۔
جبکہ براؤن چاولوں کو پکانے کے لیے 40 منٹ لگ سکتے ہیں لہذا ا س مسئلے کے حل کے لیے کوئنز یونیورسٹی کے سائنس دان ان دنوں ایک فلٹر والا رائس ککر تیار کر رہے ہیں جو جلد ہی صارفین کی پہنچ میں ہوگا ۔
ایک پچھلی تحقیق میں بتایاگیا تھا کہ چاول کی اقسام کے لحاظ سے چاولوں میں 2.6 سے 7.2مائکروگرام آرسینک ملتا ہے ،جبکہ اس زہر کی 50 گرام انسان کو موت کے منہ تک پہنچا سکتی ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ اگرچہ چاول کھانے پر ہمارا مدافعتی نظام آرسینک زہر کو بے اثر کرڈالتا ہے لیکن طویل عرصہ دن رات چاول کھانے والوں میں کینسر کا خدشہ دوسروں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے ۔