گزشتہ سال لندن کی سڑکوں پر رہنے والے پیشہ ور گداگروں کی تعداد میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
لندن —
موسم سرما کی طوفانی بارش اور بادلوں کی گھن گرج کے ساتھ ساتھ میرے قدموں کی تیزی میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔ مرکزی لندن کی سڑکیں ویسے تو ہروقت ہی راہ گیروں سے بھری رہتی ہیں مگر شام کے اس مخصوص پہر فٹ پاتھ پر پیدل چلنے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ یہاں سر ہی سر نظر آتے ہیں۔
ایسے میں ہر کوئی کام سے گھر واپس جانے کی جلدی میں ہوتا ہے۔ میرے قدم بھی گھر کی جانب رواں دواں تھے کہ اچانک ایک کتا آ کر میرے سامنے لوٹنے لگا۔ یہ کتا فٹ پاتھ پر بیٹھے اس خاموش شخص کا تھا جو میلے سے کمبل میں لپٹا ہوا تھا اور جس کا دھندا شاید آج مندا تھا۔
جب ہی کتا اپنے مالک سے وفاداری نبھانے کے لیے مجھ سے مدد کے نام پر چند سکے چاہتا تھا۔ میری نظرجب اس کے خالی کشکول کی طرف پڑی توخود بخود ہی میرا ہاتھ پرس میں چند سکے تلاش کرنے لگا اور بالآخر اس کی قسمت کا سکہ میرے پرس سے برآمد ہو ہی گیا۔
لندن میں ایسے بےگھر وں کا ٹھکانہ زیادہ تر ریلوے اسٹیشن یا پھر سیاحتی مراکز ہوتے ہیں۔ لوگ ان افراد کو عادی نشئی خیال کرتے ہیں اور اس لیے بھیک دینا پسند نہیں کرتے۔ لیکن میرے سامنے سوال کرنے والا کوئی انسان نہیں بلکہ ایک کتا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ مجھے رحم کتے پر آیا تھا یا بھکاری پر کہ جس کا پیشہ تو مانگنا ہے لیکن وہ صدا لگانا نہیں جانتا۔ اسے دیکھ کر مجھے اپنے بچپن کی ایک جمعرات والی مائی کی صدا یاد آگئی جو گلا پھاڑ پھاڑ کر سارے محلے کو سر پراٹھا لیتی تھی، "جو دے اس کا بھی بھلا اور جو نہ دے اس کا بھی بھلا"۔
لیکن اس فٹ پاتھ والے شخص نے تو اپنی مراد پوری کرنے والے کو نظر اٹھا کر دیکھا بھی نہیں۔ اسی بے نیازی سے زمین کی جانب تکتا رہا گویا اس نے کسی انسان سے نہیں بلکہ سیدھا خدا سے ہی سوال کیا ہے اور قسمت پر صابر و شاکر ہو کر بیٹھ گیا ہے۔
میں کتے اور اس کے مالک کی ایک تصویر لینا چاہتی تھی جس پر اسے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اسی دوران ایک راہ گیر خاتون نے اس سے کہا کہ وہ مجھ سے تصویر بنوانے کے کم از کم پانچ پونڈ وصول کرے لیکن اس کا جواب وہی خاموشی رہا۔ مجھےاس کا رویہ عام فقیروں جیسا نہیں لگا۔ وہ کچھ بابا ٹائپ کا فقیر لگتا تھا جو قناعت پسند تھا یا پھر اسے آج رات نشے کی ضرورت نہیں تھی اور اسی لیے پونڈ اینٹھنے کا موقع اس نے گنوا دیا تھا۔
"تم کسی شیلٹر میں پناہ کیوں نہیں لیتے ہو؟" اسے شاید میری بات ناگوار گزری تھی اسی لیے وہ اپنے کتے کو ڈانٹنے لگا.
میرا ہاتھ پھر تیزی سے پرس میں سکے تلاش کرنے لگا تاکہ سخت سردی سے بے نیاز اس شخص کے اطمینان کا راز جان پاؤں۔ مگراس نے اشارے سے مجھے جانےکو کہا۔ اب میرا وہاں مزید ٹہرنا بے کار تھا۔ جیسے ہی میں وہاں سے کچھ قدم آگے بڑھی اس نے مجھے مخاطب کئے بغیر کچھ کہا یا شاید وہ بڑبڑا رہا تھا۔
"خبر بناؤ گی میری؟ کیا لکھنا چاہتی ہو؟ میں 'نک' ہوں، خالی 'نک'۔ آگے کوئی نام نہیں دیا کسی نے مجھے۔ بچپن سے خانہ بدوشوں کے ساتھ پلا بڑھا ہوں اور اب یہ سڑک میرا پتا ہے۔ یہی میرا لائف اسٹائل ہے۔ میری دن بھر کی کمائی دیکھی تم نے؟ ان پیسوں سے میں اور میرا کتا کھانا کھا لیتے ہیں۔ مجھے لوگوں نے بتایا تھا کہ "لندن کی سڑکیں سونا اگلتی ہیں"، سو فاقوں سے تنگ آکر اس شہر میں آیا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ میں اور میرا کتا یہاں بھوکا نہیں مریں گے"۔
اس کے رویے میں مایوسی چھپی تھی۔ شاید لندن اس کی امیدوں پر پورا نہیں اتر رہا تھا ورنہ ایسی زندگی تو وہ اپنے ملک میں بھی گزار سکتا تھا۔ مگر پھر بھی وہ یہاں سے جانا نہیں چاہتا تھا ۔
مجھے کئی سوال پریشان کرنے لگے کہ جس شہر میں سڑکوں پر رہنے والوں کے لیے 'نو سکینڈ ڈے آوٹ' کی مددگار فون لائن کی سہولت موجود ہے اور ضلعی کونسلوں کی طرف سے بے گھروں کے لیے فوری قیام گاہ کا انتظام کیا جاتا ہے، اس شہر کی سڑکیں بے گھر افراد سے کیوں بھرتی جارہی ہیں؟
لندن کے مقامی اخبار 'ایوننگ اسٹینڈرڈ' کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ گزشتہ سال لندن کی سڑکوں پر رہنے والے پیشہ ور گداگروں کی تعداد میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پیشہ ور گداگر حکومت اور خیراتی ادروں کی مدد لینے سے یا تو انکار کردیتے ہیں یا پھر کسی نئی جگہ پرٹھکانہ ڈھونڈ لیتے ہیں، لیکن مانگنے کا پیشہ نہیں چھوڑتے ہیں۔
کچھ دنوں پہلے 'میل آن لائن' میں ایک دلچسپ خبر شائع ہوئی تھی جس میں سائمن نامی فقیر کو لندن سے گرفتارکیا گیا تھا جو فٹ پاتھ سے 50 ہزار سالانہ کما رہا تھا، ایک ذاتی فلیٹ رکھتا تھا لیکن پھر بھی سارا دن سڑکوں پر رہنا چاہتا تھا کیونکہ لندن کی انہی سڑکوں نے اسے مالدار بنایا تھا۔
رپورٹ کے مطابق بے گھر افراد زیادہ تر شہر کے پوش علاقوں میں نظرآتے ہیں۔ لندن میں گداگروں کی 28 فیصد تعداد مشرقی یورپ کے ملکوں سے تعلق رکھتی ہے جن میں سے10 فیصد گداگرصرف رومانیہ سے آئے ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں پرتگال، اسپین، آئرلینڈ اور اٹلی سے تعلق رکھنے والے بے گھر افراد بھی اپنی قسمت آزماتے نظر آتے ہیں۔
ایک سوال اور بھی کیا جاتا ہے کہ آخر وہ کیا کشش ہے جس کی وجہ سے تارکین وطن انگلستان میں رہنا پسند کرتے ہیں ؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ برطانیہ کا فلاحی نظام غیر ملکیوں کے لیے بے پناہ کشش رکھتا ہے۔ یہاں عوام کے لیے بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ شہری حکومتیں تعلیم، صحت، رہائش کی مفت سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ تاہم عارضی قیام گاہوں اور کونسل کے گھروں کا کلیم کرنے کے لیے برطانوی شہری ہونا ضروری ہے یا پھر امیگریشن قوانین کے تحت انھیں بینیفٹس حاصل کرنے کا اہل بتایا گیا ہو۔
رواں سال یورپی یونین کے دو رکن ممالک رومانیہ اور بلغاریہ کے باشندوں کو برطانیہ میں آزادانہ داخلے کی اجازت مل گئی ہے۔ سنہ 2004 میں یورپی یونین کی جانب سے پہلی مرتبہ مشرقی یورپ کے ملکوں کو رکنیت دینے کے بعد سے لاکھوں تارکین وطن برطانیہ میں بس چکے ہیں۔
اسی تناظر مین گزشتہ برس حکومت نے تارکین وطن کو بے روزگاری الاونسز کے حصول سے روکنے کے لیے قانون سازی کی ہے۔ نئے قوانین کے مطابق یورپ کے دیگر ملکوں سے برطانیہ آنے والے تارکین وطن کو بے روزگاری الاؤنس اور دیگر مراعات حاصل کرنے کے لیے تین مہینے انتظار کرنا پڑے گا۔
تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آنے والے برسوں میں برطانوی دارالحکومت کی سڑکوں کو بہت سے بے روزگاروں کی کفالت کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔
ایسے میں ہر کوئی کام سے گھر واپس جانے کی جلدی میں ہوتا ہے۔ میرے قدم بھی گھر کی جانب رواں دواں تھے کہ اچانک ایک کتا آ کر میرے سامنے لوٹنے لگا۔ یہ کتا فٹ پاتھ پر بیٹھے اس خاموش شخص کا تھا جو میلے سے کمبل میں لپٹا ہوا تھا اور جس کا دھندا شاید آج مندا تھا۔
جب ہی کتا اپنے مالک سے وفاداری نبھانے کے لیے مجھ سے مدد کے نام پر چند سکے چاہتا تھا۔ میری نظرجب اس کے خالی کشکول کی طرف پڑی توخود بخود ہی میرا ہاتھ پرس میں چند سکے تلاش کرنے لگا اور بالآخر اس کی قسمت کا سکہ میرے پرس سے برآمد ہو ہی گیا۔
لندن میں ایسے بےگھر وں کا ٹھکانہ زیادہ تر ریلوے اسٹیشن یا پھر سیاحتی مراکز ہوتے ہیں۔ لوگ ان افراد کو عادی نشئی خیال کرتے ہیں اور اس لیے بھیک دینا پسند نہیں کرتے۔ لیکن میرے سامنے سوال کرنے والا کوئی انسان نہیں بلکہ ایک کتا تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ مجھے رحم کتے پر آیا تھا یا بھکاری پر کہ جس کا پیشہ تو مانگنا ہے لیکن وہ صدا لگانا نہیں جانتا۔ اسے دیکھ کر مجھے اپنے بچپن کی ایک جمعرات والی مائی کی صدا یاد آگئی جو گلا پھاڑ پھاڑ کر سارے محلے کو سر پراٹھا لیتی تھی، "جو دے اس کا بھی بھلا اور جو نہ دے اس کا بھی بھلا"۔
لیکن اس فٹ پاتھ والے شخص نے تو اپنی مراد پوری کرنے والے کو نظر اٹھا کر دیکھا بھی نہیں۔ اسی بے نیازی سے زمین کی جانب تکتا رہا گویا اس نے کسی انسان سے نہیں بلکہ سیدھا خدا سے ہی سوال کیا ہے اور قسمت پر صابر و شاکر ہو کر بیٹھ گیا ہے۔
میں کتے اور اس کے مالک کی ایک تصویر لینا چاہتی تھی جس پر اسے کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اسی دوران ایک راہ گیر خاتون نے اس سے کہا کہ وہ مجھ سے تصویر بنوانے کے کم از کم پانچ پونڈ وصول کرے لیکن اس کا جواب وہی خاموشی رہا۔ مجھےاس کا رویہ عام فقیروں جیسا نہیں لگا۔ وہ کچھ بابا ٹائپ کا فقیر لگتا تھا جو قناعت پسند تھا یا پھر اسے آج رات نشے کی ضرورت نہیں تھی اور اسی لیے پونڈ اینٹھنے کا موقع اس نے گنوا دیا تھا۔
"تم کسی شیلٹر میں پناہ کیوں نہیں لیتے ہو؟" اسے شاید میری بات ناگوار گزری تھی اسی لیے وہ اپنے کتے کو ڈانٹنے لگا.
میرا ہاتھ پھر تیزی سے پرس میں سکے تلاش کرنے لگا تاکہ سخت سردی سے بے نیاز اس شخص کے اطمینان کا راز جان پاؤں۔ مگراس نے اشارے سے مجھے جانےکو کہا۔ اب میرا وہاں مزید ٹہرنا بے کار تھا۔ جیسے ہی میں وہاں سے کچھ قدم آگے بڑھی اس نے مجھے مخاطب کئے بغیر کچھ کہا یا شاید وہ بڑبڑا رہا تھا۔
"خبر بناؤ گی میری؟ کیا لکھنا چاہتی ہو؟ میں 'نک' ہوں، خالی 'نک'۔ آگے کوئی نام نہیں دیا کسی نے مجھے۔ بچپن سے خانہ بدوشوں کے ساتھ پلا بڑھا ہوں اور اب یہ سڑک میرا پتا ہے۔ یہی میرا لائف اسٹائل ہے۔ میری دن بھر کی کمائی دیکھی تم نے؟ ان پیسوں سے میں اور میرا کتا کھانا کھا لیتے ہیں۔ مجھے لوگوں نے بتایا تھا کہ "لندن کی سڑکیں سونا اگلتی ہیں"، سو فاقوں سے تنگ آکر اس شہر میں آیا ہوں۔ مجھے امید ہے کہ میں اور میرا کتا یہاں بھوکا نہیں مریں گے"۔
اس کے رویے میں مایوسی چھپی تھی۔ شاید لندن اس کی امیدوں پر پورا نہیں اتر رہا تھا ورنہ ایسی زندگی تو وہ اپنے ملک میں بھی گزار سکتا تھا۔ مگر پھر بھی وہ یہاں سے جانا نہیں چاہتا تھا ۔
مجھے کئی سوال پریشان کرنے لگے کہ جس شہر میں سڑکوں پر رہنے والوں کے لیے 'نو سکینڈ ڈے آوٹ' کی مددگار فون لائن کی سہولت موجود ہے اور ضلعی کونسلوں کی طرف سے بے گھروں کے لیے فوری قیام گاہ کا انتظام کیا جاتا ہے، اس شہر کی سڑکیں بے گھر افراد سے کیوں بھرتی جارہی ہیں؟
لندن کے مقامی اخبار 'ایوننگ اسٹینڈرڈ' کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہےکہ گزشتہ سال لندن کی سڑکوں پر رہنے والے پیشہ ور گداگروں کی تعداد میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پیشہ ور گداگر حکومت اور خیراتی ادروں کی مدد لینے سے یا تو انکار کردیتے ہیں یا پھر کسی نئی جگہ پرٹھکانہ ڈھونڈ لیتے ہیں، لیکن مانگنے کا پیشہ نہیں چھوڑتے ہیں۔
کچھ دنوں پہلے 'میل آن لائن' میں ایک دلچسپ خبر شائع ہوئی تھی جس میں سائمن نامی فقیر کو لندن سے گرفتارکیا گیا تھا جو فٹ پاتھ سے 50 ہزار سالانہ کما رہا تھا، ایک ذاتی فلیٹ رکھتا تھا لیکن پھر بھی سارا دن سڑکوں پر رہنا چاہتا تھا کیونکہ لندن کی انہی سڑکوں نے اسے مالدار بنایا تھا۔
رپورٹ کے مطابق بے گھر افراد زیادہ تر شہر کے پوش علاقوں میں نظرآتے ہیں۔ لندن میں گداگروں کی 28 فیصد تعداد مشرقی یورپ کے ملکوں سے تعلق رکھتی ہے جن میں سے10 فیصد گداگرصرف رومانیہ سے آئے ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں پرتگال، اسپین، آئرلینڈ اور اٹلی سے تعلق رکھنے والے بے گھر افراد بھی اپنی قسمت آزماتے نظر آتے ہیں۔
ایک سوال اور بھی کیا جاتا ہے کہ آخر وہ کیا کشش ہے جس کی وجہ سے تارکین وطن انگلستان میں رہنا پسند کرتے ہیں ؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ برطانیہ کا فلاحی نظام غیر ملکیوں کے لیے بے پناہ کشش رکھتا ہے۔ یہاں عوام کے لیے بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ داری حکومت کی ہے۔ شہری حکومتیں تعلیم، صحت، رہائش کی مفت سہولیات فراہم کرتی ہیں۔ تاہم عارضی قیام گاہوں اور کونسل کے گھروں کا کلیم کرنے کے لیے برطانوی شہری ہونا ضروری ہے یا پھر امیگریشن قوانین کے تحت انھیں بینیفٹس حاصل کرنے کا اہل بتایا گیا ہو۔
رواں سال یورپی یونین کے دو رکن ممالک رومانیہ اور بلغاریہ کے باشندوں کو برطانیہ میں آزادانہ داخلے کی اجازت مل گئی ہے۔ سنہ 2004 میں یورپی یونین کی جانب سے پہلی مرتبہ مشرقی یورپ کے ملکوں کو رکنیت دینے کے بعد سے لاکھوں تارکین وطن برطانیہ میں بس چکے ہیں۔
اسی تناظر مین گزشتہ برس حکومت نے تارکین وطن کو بے روزگاری الاونسز کے حصول سے روکنے کے لیے قانون سازی کی ہے۔ نئے قوانین کے مطابق یورپ کے دیگر ملکوں سے برطانیہ آنے والے تارکین وطن کو بے روزگاری الاؤنس اور دیگر مراعات حاصل کرنے کے لیے تین مہینے انتظار کرنا پڑے گا۔
تجزیہ کاروں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ آنے والے برسوں میں برطانوی دارالحکومت کی سڑکوں کو بہت سے بے روزگاروں کی کفالت کا بوجھ اٹھانا پڑے گا۔