نیشنل اکیڈمی آف سائنس کے ایک حالیہ مضمون کے مطابق نیند کے سائیکل یاحیاتیاتی گھڑی میں تبدیلی کا اثر ہمارے جسم کی ہرچیزکو متاثر کرتا ہے۔
لندن —
نیند سے متعلق ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ رات کی شفٹ میں کام کرنے سے جسم کی اندرونی گھڑی کا توازن بگڑ جاتا ہے بلکہ عمومی طور پر سونے کے اوقات میں جاگنے کی وجہ سے ہماری جینیات کو نقصان پہنچتا ہے جس کی وجہ سے صحت سےمتعلق کئی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
گزشتہ کئی تحقیقوں میں بھی رات کی شفٹ میں کام کرنے والوں میں نیند کی کمی کی وجہ سے ذیابیطس، دل کے دورے اور کینسر کے خطرے کی نشاندہی کی گئی تھی تاہم ماہرین نے کہا کہ ایک رات جاگ کر کام کرنے کے منفی اثرات ڈی این اے کے فطری اجزائے ترکیبی میں انتہائی تیزی سے بگاڑ کی صورت پیدا کرتے ہیں۔
’نیشنل اکیڈمی آف سائنس‘ کے ایک حالیہ مضمون کے مطابق نیند کے سائیکل یا حیاتیاتی گھڑی میں تبدیلی کا اثر ہمارے جسم کی ہرچیز کو متاثر کرتا ہے جس سے ہمارے جسم کا درجہ حرارت، ہارمونز، جسمانی صحت، موڈ اور دماغ کے افعال میں بھی تبدیلی ظاہر ہوتی ہے۔
برطانوی محققین نے 22 شرکاء کوایک ایسی جگہ پر رکھا گیا جہاں دن کی روشنی نہیں پہنچتی تھی اور رات کا سا اندھیرا چھایا رہتا تھا مشاہدے کا حصہ بننے والے افراد دن کی شفٹ میں کام کرنے والے ملازمین تھے جن کے سونے کے معمولات کو رات کی شفٹ میں کام کرنے والوں میں تبدیل کیا گیا جس کے بعد ان کے خون کے نمونے حاصل کیے گئے۔
جب ایک رضا کار نے رات کی شفٹ میں کام کرنا شروع کیا تو اس کی جینیاتی ٹیوننگ تبدیل ہوگئی خون کے نمونوں سے ظاہر ہوا کہ سیکیڈین کلاک رکھنے والی جین کی سرگرمیوں میں مسلسل کمی واقع ہو رہی تھی ۔
’سرئے یونیورسٹی‘ سے منسلک تحقیق کے معاون محقق ڈیرک جان ڈیجک نے کہا کہ جسم میں موجود ہرٹشو دن بھر اسی گھڑی کےساتھ تال میل کو برقرار رکھتا ہے ۔
انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اسے ایک قسم کی افراتفری کہا جا سکتا ہے یا پھر اس کی مثال ایک ایسے گھر میں رہنے والوں کی ہے جن کے ہر کمرے میں گھڑی موجود ہے لیکن ہر گھڑی غلط وقت بتا رہی ہے جس کے نتیجے میں گھر والوں کے لیے وقت کا تعین کرنا مشکل ہو گیا ہے اور نتیجتا گھر کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جسم کی حیاتیاتی گھڑی میں چھیڑ چھاڑ کا انجام بالآخر ہم آہنگ جین کوغیر متوازن کرنے پر تمام ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے جسم میں تقریبا 6 فیصد ایسی جینز ہیں جن میں یہ قدرتی گھڑی موجود ہے جن کی سرگرمی دن کے بعض اوقات کے لیے مخصوص ہوتی ہے ان میں کچھ سیکیڈین جین رات میں فعال ہوتی ہیں جبکہ کچھ جین دن کے وقت زیادہ فعال رہتی ہیں۔
تاہم نتیجے سے پتا چلا کہ 97 فیصد سے زائد متوازن اور ہم آہنگ جین نیند کی قدرتی ہم آہنگی سے محروم ہو چکی تھی جس سے اس بات کی وضاحت بھی ہوتی ہے کہ بے قاعدہ شفٹ میں کام کرنا یا جیٹ لاگ ہونے کی صورت میں ہمیں کیوں اتنا برا لگتا ہے ۔
پروفیسر ڈیجک نے کہا کہ ’’ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ نیند کے فطری عمل کو متاثر کرنے سے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن ہمارا نتیجہ اس بات کو سمجھنے کے لیے پہلی سیڑھی ہے کہ قدرتی نیند کا عمل متاثر ہونے پر حیاتیاتی گھڑی اورسیکیڈین کلاک رکھنے والی جین میں کون سی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔‘‘
گزشتہ کئی تحقیقوں میں بھی رات کی شفٹ میں کام کرنے والوں میں نیند کی کمی کی وجہ سے ذیابیطس، دل کے دورے اور کینسر کے خطرے کی نشاندہی کی گئی تھی تاہم ماہرین نے کہا کہ ایک رات جاگ کر کام کرنے کے منفی اثرات ڈی این اے کے فطری اجزائے ترکیبی میں انتہائی تیزی سے بگاڑ کی صورت پیدا کرتے ہیں۔
’نیشنل اکیڈمی آف سائنس‘ کے ایک حالیہ مضمون کے مطابق نیند کے سائیکل یا حیاتیاتی گھڑی میں تبدیلی کا اثر ہمارے جسم کی ہرچیز کو متاثر کرتا ہے جس سے ہمارے جسم کا درجہ حرارت، ہارمونز، جسمانی صحت، موڈ اور دماغ کے افعال میں بھی تبدیلی ظاہر ہوتی ہے۔
برطانوی محققین نے 22 شرکاء کوایک ایسی جگہ پر رکھا گیا جہاں دن کی روشنی نہیں پہنچتی تھی اور رات کا سا اندھیرا چھایا رہتا تھا مشاہدے کا حصہ بننے والے افراد دن کی شفٹ میں کام کرنے والے ملازمین تھے جن کے سونے کے معمولات کو رات کی شفٹ میں کام کرنے والوں میں تبدیل کیا گیا جس کے بعد ان کے خون کے نمونے حاصل کیے گئے۔
جب ایک رضا کار نے رات کی شفٹ میں کام کرنا شروع کیا تو اس کی جینیاتی ٹیوننگ تبدیل ہوگئی خون کے نمونوں سے ظاہر ہوا کہ سیکیڈین کلاک رکھنے والی جین کی سرگرمیوں میں مسلسل کمی واقع ہو رہی تھی ۔
’سرئے یونیورسٹی‘ سے منسلک تحقیق کے معاون محقق ڈیرک جان ڈیجک نے کہا کہ جسم میں موجود ہرٹشو دن بھر اسی گھڑی کےساتھ تال میل کو برقرار رکھتا ہے ۔
انھوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اسے ایک قسم کی افراتفری کہا جا سکتا ہے یا پھر اس کی مثال ایک ایسے گھر میں رہنے والوں کی ہے جن کے ہر کمرے میں گھڑی موجود ہے لیکن ہر گھڑی غلط وقت بتا رہی ہے جس کے نتیجے میں گھر والوں کے لیے وقت کا تعین کرنا مشکل ہو گیا ہے اور نتیجتا گھر کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جسم کی حیاتیاتی گھڑی میں چھیڑ چھاڑ کا انجام بالآخر ہم آہنگ جین کوغیر متوازن کرنے پر تمام ہوتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہمارے جسم میں تقریبا 6 فیصد ایسی جینز ہیں جن میں یہ قدرتی گھڑی موجود ہے جن کی سرگرمی دن کے بعض اوقات کے لیے مخصوص ہوتی ہے ان میں کچھ سیکیڈین جین رات میں فعال ہوتی ہیں جبکہ کچھ جین دن کے وقت زیادہ فعال رہتی ہیں۔
تاہم نتیجے سے پتا چلا کہ 97 فیصد سے زائد متوازن اور ہم آہنگ جین نیند کی قدرتی ہم آہنگی سے محروم ہو چکی تھی جس سے اس بات کی وضاحت بھی ہوتی ہے کہ بے قاعدہ شفٹ میں کام کرنا یا جیٹ لاگ ہونے کی صورت میں ہمیں کیوں اتنا برا لگتا ہے ۔
پروفیسر ڈیجک نے کہا کہ ’’ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ نیند کے فطری عمل کو متاثر کرنے سے صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن ہمارا نتیجہ اس بات کو سمجھنے کے لیے پہلی سیڑھی ہے کہ قدرتی نیند کا عمل متاثر ہونے پر حیاتیاتی گھڑی اورسیکیڈین کلاک رکھنے والی جین میں کون سی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں۔‘‘