شمالی کوریا خلائی ٹیکنالوجی کے حامل ممالک کی صف میں شامل

میزائل تجربے کی کامیابی پر مسرت کے اظہار کے لیے دارلحکومت پیانگ یانگ میں نوجوانوں کا رقص

خیال کیا جاتا ہے کہ شمالی کوریا کے پاس کئی جوہری ہتھیار ہیں اور بین الاقوامی برادری کو خدشہ ہے کہ وہ اپنی خلائی ٹیکنالوجی کی مدد سے جوہری ہتھیار لے جانے والا بین الابراعظمی میزائل تیار کرسکتا ہے۔
اقوام متحدہ اور امریکہ کی جانب سے بار بار روکے جانے کے باوجود شمالی کوریانے ایک میزائل کے ذریعے خلائی مدار میں اپنا ایک سیٹلائٹ پہنچا دیا ہے جس کے بارے میں اس کا کہناہے کہ وہ پر امن مقاصد کے لیےہے ۔

دنیا کے زیادہ تر ممالک شمالی کوریا کے اس اقدام کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرار دادوں کی خلاف ورزی کے طورپر دیکھ رہے ہیں۔

جنوبی کوریا، جاپان ، امریکہ اور اقوام متحدہ نے بدھ کی صبح ہونے والے اس میزائل تجربے کی فوری طور پر مذمت کی ۔

جاپان اور جنوبی کوریا کےعہدے داروں نے میزائل لانچنگ کے بعد سیکیورٹی سے متعلق اپنے ہنگامی اجلاس منعقد کیے ۔

میزائل تجربے کی کامیابی پر خوشی کا اظہار

بار بار کے انتباہوں اور لانچنگ منسوخ کرنے کی درخواستیں نظر انداز کرنے پرجنوبی کوریا کے وزیر خارجہ کم سونگ ہوان نے شمالی کوریاپر کڑی نکتہ چینی کی ۔

انہوں نے کہا کہ یہ اقدام شمالی کوریا کو بین الاقوامی برادری سے مزید الگ تھلگ کر دے گا اور اس ملک کو چاہیے کہ وہ جوہری ہتھیاروں اورمیزائلوں کی ترقی کے پروگراموں پر بے پناہ مالی وسائل خرچ کرنے کی بجائے انہیں اپنےعوام کی پریشان کن زندگیوں کے مسائل حل پر صرف کرے ۔

ٹوکیو میں جاپانی وزیر اعظم یوشی ہی کی نودا نے شمالی کوریا کی اس لانچنگ کو کلی طور پر ناقابل قبول اور قابل مذمت قرار دیا ۔

انہوں نے اپنے عوام کو پرسکون رہنے کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ وہ انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ان کی حکومت بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کرایک سخت ردعمل ظاہر کرے گی۔

شمالی کوریا کے ایرو سپیس ڈیفنس کمانڈ نے کہا ہے کہ ابتدائی علامات کے مطابق میزائل نے سائنسی آلہ خلا میں نصب کردیا ہے جو بظاہر خلائی مدار میں پہنچ رہاہے ۔

شمالی کوریا کا راکٹ تجربہ

شمالی کوریا نے ٹیلی وژن پر ایک خصوصی نشریا ت میں ’ سوہائے اسپیس سینٹر‘ سے کیے گئے میزائل تجربے کو کامیاب قرار دیتے ہوئے اس کا خیرمقدم کیا گیا ۔

ٹی وی نشریے میں بتایا گیا کہ یون ہا تھری راکٹ کے ذریعے خلا میں چھوڑا جانے والا سیٹلائٹ اپنے مدار میں داخل ہوگیا ہے۔
سیٹلائٹ مدار میں داخل ہو گیا ہے ۔

اقوام متحدہ کی سابقہ قرار دادوں کے تحت اس طرح کے میزائل تجربوں پر پابندی ہے کیونکہ ان کی ٹیکنالوجی تقریباً وہی ہے جو بیلسٹک میزائلوں میں استعمال کی جاتی ہے۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اپنے ایک بیان میں اس لانچنگ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں خدشہ ہے شمالی کوریا کی اس اشتعال انگیزی سے خطے کے امن اورا ستحکام پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل شمالی کوریا کے اس حالیہ تجربے پر بحث کے لیے بدھ کو اپنا اجلاس کر رہی ہے ۔

جنوبی کوریا کے لوگ اپنے ٹیلی ویژن سیٹوں پر راکٹ لانچنگ کا منظر دیکھ رہے ہیں

خیال کیا جاتا ہے کہ شمالی کوریا کے پاس کئی جوہری ہتھیار ہیں اور بین الاقوامی برادری کو خدشہ ہے کہ وہ اپنی خلائی ٹیکنالوجی کی مدد سے جوہری ہتھیار لے جانے والا بین الابراعظمی میزائل تیار کرسکتا ہے۔

اگر شمالی کوریا ایسا اقدام نہیں بھی کرتا تو بھی ایرو سپیس کے ایک ماہر چارلس وک کے مطابق دنیا کےاس الگ تھلگ اور غریب ملک نے خلائی تجربات کامیابی سے سرانجام دینے والی مختصر لیگ آف نیشز میں شامل ہونے کا اعزاز حاصل کرلیاہے۔

شمالی کوریا خلائی ٹیکنالوجی میں اتنا کچھ حاصل کرچکا ہے جو اس کا حریف اور کہیں زیادہ بااثر پڑوسی ملک جنوبی کوریا اب تک حاصل نہیں کرپایا۔

جنوبی کوریا نے ٹیکنالوجی کی مدد سے 2009 اور 2010 میں اپنی سر زمین سے اپنا ایک سیٹلائٹ لانچ کرنے کی کوشش کی تھی ۔ لیکن اس کی وہ دونوں کوششیں ناکام رہی تھیں۔

اس سلسلے میں نومبر میں ایک اور کوشش کی گئی تھی، لیکن اسے بھی طے شدہ لانچنگ سے صرف چند منٹ قبل ہی کسی تکنیکی خرابی کے باعث ترک کرنا پڑاتھا۔