کسی نے ہنگامی دروازے بنانے کا نہیں کہا

بنگلہ دیش کی گارمنٹ فیکٹری میں آتش زدگی(فائل)

گذشتہ ہفتے کی رات تزرین فیشن فیکٹری میں آگ بھڑک اٹھنے کے بعد ہنگامی دروازے نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں کارکن جلتی ہوئی عمارت کے اندر پھنس گئے تھے۔
ملبوسات تیار کرنے والی بنگلہ دیش کی اس فیکٹری کے مالک نے، جس میں بڑے پیمانے پر آگ لگنے سے 112 کارکن ہلاک ہوگئےتھے، کہاہے کہ انہیں یہ علم نہیں تھاکہ فیکٹری میں ہنگامی صورت حال میں باہر نکلنے کے راستے بھی بنائے جاتے ہیں۔

تزرین فیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر دلاور حسین نے بنگلہ دیش کے ایک اخبار ’ دی ڈیلی سٹار‘ کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہا کہ انہیں کبھی کسی نے یہ نہیں بتایا کہ فیکٹری میں ایسے راستے بھی بنائے جاتے ہیں جنہیں ہنگامی صورت حال میں کارکن باہر نکلنے کے لیے استعمال کرسکیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ مجھے کبھی کسی نے ہنگامی دورازے بنانے کی ہدایت نہیں کی۔

گذشتہ ہفتے کی رات تزرین فیشن فیکٹری میں آگ بھڑک اٹھنے کے بعد ہنگامی دروازے نہ ہونے کی وجہ سے سینکڑوں کارکن جلتی ہوئی عمارت کے اندر پھنس گئے تھے۔

آگ بجھانے والے عملے کا کہناہے کہ ہنگامی دروازے ہونے کی صورت میں بہت سے لوگوں کو مرنے سے بچایا جاسکتا تھا۔

بدھ کے روز پولیس نے فیکٹری کے تین عہدے داروں کو گرفتار کرلیا جن پرالزام ہے کہ انہوں نے فائر الارم بجنے کے بعد کارکنوں کو اپنی نشستوں پر واپس جانے کا حکم دے کر دروازوں پر تالے لگوا دیے تھے تاکہ وہ باہر نہ نکل سکیں۔

آتش زدگی کے سانحے کے بعد ملبوسات بنانے والی فیکٹریوں کے کارکن تقریباً روزانہ ہی فیکٹریوں میں کام کے خراب حالات کے خلاف مظاہرے کررہے ہیں۔