’2 کروڑ آباد ی کے شہر کراچی میں صرف چار ہزار سات سو پولیس اہلکار تعینات ہیں۔۔یعنی چارہزار دوسو پچپن شہریوں کے تحفظ کے لئے صرف ایک پولیس اہلکار۔
کراچی میں جہاں سیاسی کارکنان اور عام شہریوں کونشانہ بنایاجارہا ہے وہیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہل کاربھی، جو عوام کے محافظ سمجھے جاتے ہیں ، غیر محفوظ ہوگئے ہیں۔ رواں سال کے ساڑھے نو ماہ کے دوران80 اہلکار لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق جنوری میں چھ ، فروری میں تین ، مارچ میں 10، اپریل میں 12، مئی میں 5، جون میں 8، جولائی میں17اگست میں7جبکہ یکم ستمبر سے 18اکتوبر کے دوران 12پولیس اہلکار نامعلوم افراد کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین ریاض فتیانہ کے مطابق ’2 کروڑ آباد ی کے شہر میں صرف چار ہزار سات سو پولیس اہلکار تعینات ہیں۔۔یعنی 4ہزار 2سو 55شہریوں کے تحفظ کے لئے صرف ایک پولیس اہلکار دستیاب ہے۔ اس صورتحال میں اس بات کا اندازہ لگانا کوئی مشکل بات نہیں کہ بڑھتے ہوئے جرائم پر قابو پانا کیوں مشکل ہے اور ایسے میں ٹارگٹ کلرزپر قابو کیسے پایا جاسکتا ہے۔
اس کے برعکس محکمہ پولیس کا ہمیشہ سے یہ کہنا ہے کہ’’ محکمے کے پاس وسائل نہیں‘‘
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ دہشت گرد وں کے پاس انتہائی جدید اسلحہ ہے جبکہ پولیس وہی روایتی اور پرانے ہتھیاروں کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے۔اس حوالے سے ایک عام رائے یہ ہے کہ ان ہتھیاروں کا مقابلہ جدید ہتھیاروں سے کرنا یا یہ سوچنا کہ دہشت گرد اس پرانے ہتھیاروں سے ڈر جائیں گے ، محض خام خیالی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ”اگر پولیس کو جدید اسلحے سے لیس کربھی دیا جائے تو بھی انہیں مکمل تربیت دیئے بغیر مطلوبہ نتائج حاصل ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ تو ظاہر ہے کہ محافظ خود غیر محفوظ ہوں گے تو وہ دوسروں کی حفاظت کافریضہ کس طرح انجام دے پائیں گے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے جاری کردہ اعداد وشمار کے مطابق جنوری میں چھ ، فروری میں تین ، مارچ میں 10، اپریل میں 12، مئی میں 5، جون میں 8، جولائی میں17اگست میں7جبکہ یکم ستمبر سے 18اکتوبر کے دوران 12پولیس اہلکار نامعلوم افراد کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے چیئرمین ریاض فتیانہ کے مطابق ’2 کروڑ آباد ی کے شہر میں صرف چار ہزار سات سو پولیس اہلکار تعینات ہیں۔۔یعنی 4ہزار 2سو 55شہریوں کے تحفظ کے لئے صرف ایک پولیس اہلکار دستیاب ہے۔ اس صورتحال میں اس بات کا اندازہ لگانا کوئی مشکل بات نہیں کہ بڑھتے ہوئے جرائم پر قابو پانا کیوں مشکل ہے اور ایسے میں ٹارگٹ کلرزپر قابو کیسے پایا جاسکتا ہے۔
اس کے برعکس محکمہ پولیس کا ہمیشہ سے یہ کہنا ہے کہ’’ محکمے کے پاس وسائل نہیں‘‘
ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ دہشت گرد وں کے پاس انتہائی جدید اسلحہ ہے جبکہ پولیس وہی روایتی اور پرانے ہتھیاروں کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں نبھا رہی ہے۔اس حوالے سے ایک عام رائے یہ ہے کہ ان ہتھیاروں کا مقابلہ جدید ہتھیاروں سے کرنا یا یہ سوچنا کہ دہشت گرد اس پرانے ہتھیاروں سے ڈر جائیں گے ، محض خام خیالی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق ”اگر پولیس کو جدید اسلحے سے لیس کربھی دیا جائے تو بھی انہیں مکمل تربیت دیئے بغیر مطلوبہ نتائج حاصل ہونے کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ تو ظاہر ہے کہ محافظ خود غیر محفوظ ہوں گے تو وہ دوسروں کی حفاظت کافریضہ کس طرح انجام دے پائیں گے۔